جیسے محمد اکبر لاہور میں واقع ایک ہنڈا اٹلس ڈیلر شِپ کے باہر اپنی رجسٹرڈ05ہنڈا سِٹی سے نکلتا ہے، وہ سیلز ایسوسی ایٹ محمد ارسلان سے اپنے والد کے لئے ایک گاڑی خریدنے کے سلسلہ میں ہمکلام ہونے کے لئے بے چین ہے۔”میں اپنے والد صاحب کو ایک نئی ہنڈا سوِک اورئیل بطور تحفہ پیش کرنا چاہتا ہوں“۔اپریل کے ایک تپتے دن میں اکبر نے ڈیلر شِپ داخل ہوتے ہوئے کہا۔
بلا شبہ جناب،آپ اپنی گاڑی جلد از جلد نومبر 2017کے درمیانی حصہ میں حاصل کر سکیں گے،سیلز ایسوسی ایٹ نے جواب دیا۔اکبر نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا: ’ابھی پچھلے دنوں ہی بکنگ پیریڈصرف ایک ماہ تک آ گیا تھا،یہ اچانک اتنا اوپرکیسے جا سکتا ہے؟
’گاڑی کی بڑھتی ہو ئی پسندیدگی کی بدولت اس کے آرڈرز حد سے تجاوز کر گئے ہیں،سیلز ایسوسی ایٹ نے فوراًجواب دیا۔خیر جو بھی ہے اس کا ایک متبادل راستہ بھی ہے، یہ گاڑی دولاکھ کی اضافی رقم کے ساتھ لوکل مارکیٹ میں دستیاب ہے‘۔
ہر جگہ کی یہی کہانی ہے ہنڈا سِٹی کی مثال ہی لے لیں:اس کا بکنگ پیریڈ چارٹ سے تجاوز کر گیا ہے اور آپ کو غیر یقینی طور پر سات ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔یہاں ہمیں آئی۔ایم۔سی فلیگ شِپ ریونیو ڈرائیور کرولا لائن اپ کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔اس کی بے تحاشہ ڈیمانڈ کی وجہ سے کچھ تھری ایس ڈیلر ز نے اس کی بکنگ تک بند کر دی ہے۔یہی نہیں کہ یہ کمی صرف پاکستان آٹو مارکیٹ میں سیڈان تک محدود ہے بلکہ سوزوکی ویگن آر، پاک سوزوکی فلیگ شِپ 1000سی سی کار بھی تین سے چار ماہ کے غیر یقینی انتظار یا پچاس سے نوے ہزار تک کی اضافی رقم پر ہی بک ہو رہی ہے۔اس ساری صورتحال میں الٹِس گرینڈی بچی ہوئی ہے اور یہ پینتالیس سے ساٹھ دِن انتظار کے بعد حاصل کی جا سکتی ہے۔
کچھ روز قبل ہی،چیئر مین پی۔اے۔ایم۔اے۔ڈی۔اے۔نے کسی بھی گاڑی کی خریداری کے تین ماہ کے اندر ایڈیشنل ٹرانسفر ٹیکس لاگو کیا تھا۔ان کا ماننا تھا کہ یہ ایڈیشنل رجسٹریشن ٹیکس زیادہ اضافی رقم یا انعام کی لعنت کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ”انویسٹرزگاڑیوں کی جلدڈلیوری کے عوض صارفین سے ہائی اون ریٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔اور اگر صارف کمپنی کی طرف سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق گاڑی بک اور ڈلیوری لیتا ہے تو اسے کسی قسم کی اضافی رقم دینے کی ضرورت نہیں ہے“۔یہ سب اس بڑھتے ہوئے مسئلہ کی اوور عہدیداران کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے،جہاں ایک قابلِ احترام صارف کوپریمیم کے طورپر بھاری رقم دینا پڑتی ہے یا پھر 180دن کا لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے،جس کی تمام رقم وہ پہلے ادا کر چکا ہے اوراس امید کے ساتھ کہ گاڑی مِل جائے گی۔
اصل سوال اپنی جگہ ابھی بھی کھڑا ہے،کہ پاکستانی آٹو موٹِو مارکیٹ میں اس مصنوعی کمی کی وجہ کیا ہے؟
اس جواب کی وضاحت دو دلائل کے ساتھ کی جا سکتی ہے:
٭ اصل ڈلیوری وقت کی بجائے جلد جز جلد ڈلیوری حاصل کرنے کے لئے صارفین کا فوری ردِعمل جو کہ انویسٹرز کو یہ جہت دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اون یا انعامی رقم حاصل کریں۔
٭ پروڈکشن کی طاقت بڑھانے کے لئے اچھے انویسٹمنٹ لائحہ عمل کی کمی۔
بکنگ کی مزید گنجائش نہ ہونے کی بدولت،مایوس کن انتظار اور مایوس کن اقدامات میں کوئی حیرانگی والی بات نہیں ہونی چاہیے۔مزے کی بات یہ ہے کہ،کچھ روز قبل اٹلس ہنڈا نے ہنڈا بی۔آر۔وِی کی پہلے سے بکنگ کا اعلان کر دیا ہے،جس نے ابھی تک اپنا چہرہ بھی نہیں دکھایا،اور ذرائع کے مطابق کمپنی تھری ایس ڈیلر شِپس اکتوبر اور نومبر 2017کے عارضی ڈلیوری ٹائم کی پیشکش بھی کر رہی ہے۔اسی زمرے میں،یہ بات واضح کرتے ہیں کہ یہی ہنگامہ مارکیٹ میں گاڑیوں کی مصنوعی کمی کاموجب بنتا ہے۔تما م گاڑیاں بنانے والے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کام کر رہے ہیں اور پھر بھی وہ بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے قابل نہیں،جس سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔
موجودہ وقت کے اعتبار سے،پاکستان میں ہر 1000میں سے 16لوگ گاڑی رکھتے ہیں،اور محققین کا کہنا ہے کہ ملک میں متوسط طبقے کے خاندانوں میں اضافے کی بدولت اگلے چند سالوں میں یہ تعداد20تک پہنچ سکتی ہے۔
یہ امرسامنے رکھنا بھی ضروری ہے کہ انڈس موٹر کمپنی کے سی۔ای۔او جناب علی اصغر جمالی اور چیئر مین پی۔اے۔ایم۔اے۔ڈی۔اے دونوں نے مختلف طریقوں اور مختلف جگہوں پر گاڑیوں کی بے ترتیب فرخت کو منظم کرنے کے لئے مناسب ٹیکس کی بڑھتی ضرورت کو اجاگر کیا ہے،گاڑیوں کو صارفین کی جانب سے آرڈرز ملنے پر بنایا جاتا ہے،اور متعلقہ ادارے نیا منصوبہ لاگو کر کے ایک ہی شناختی کارڈ پر ایک سے زیادہ بکنگز کو روک کر ہائی اون جیسی لعنت کو رد کر سکتے ہیں۔جو کہ لوکل مارکیٹ کی موجودہ صورتحال میں ایک نئی زندگی کے مترادف ہو گا۔اس سب میں نئی اآٹو پالیسی شامل ہو گی،اور تیزی سے فروغ پاتی انڈسٹری ہمارے ہاتھ میں ہو گی۔ آٹو انڈسٹری کوچائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور سے بھی کافی فروغ ملے گا اور اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ یہ سلسلہ پاکستان کے پہلے سے بڑھتے ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مزید بہتر کرے گا۔سو،ساکھ پر بنے رہنے کے لئے آنے والے کچھ مہینوں میں چند انتہائی اہم اقدامات اٹھائے جائیں گے۔