ڈرائیونگ لائسنس کی خصوصی مہم: احسن قدم بدانتظامی کی نذر
کراچی میں ٹریفک پولیس کی جانب سے ڈرائیونگ لائسنس نہ رکھنے والوں کے خلاف کاروائی کی خصوصی مہم گذشتہ روز (2 نومبر سے) شروع ہوئی تاہم محکمے کی نا اہلی اور شدید بد انتظامی کے باعث پہلے ہی روز ناکام ہوگئی۔ بلاشبہ یہ ایک بہت اچھی اور قابل تعریف مہم ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ شروعات سے قبل مکمل منصوبہ بندی کی جاتی اور کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے احسن انداز میں نمٹنے کی تیاری کرلی جاتی۔
ڈی آئی جی ٹریفک عامر شیخ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے والوں پر صرف جرمانہ ہی عائد نہیں کیا جائے بلکہ انہیں جیل کی سیر بھی کرائی جائے گی۔اس تنبیہ کے بعد شہریوں کی ایک بڑی تعداد ڈرائیونگ لائسنس بنوانے کے لیے محکمہ ٹریفک پولیس کے دفاتر پہنچ گئی۔لیکن حسب سابق محکمے نے بڑی تعداد میں لوگوں کی متوقع درخواستوں کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی اس لیے صرف چند سو درخواستوں کے بعد دفاتر کے دروازوں پر موجود ہزاروں کے مجمع سے مزید درخواستیں لینے سے انکار کردیا اور دفاتر کے دروازے بند کردیے گئے۔
وہ عام شہری جو ڈی آئی جی ٹریفک کے اچانک اعلان سے پہلے ہی ناخوش تھے،محکمے کی جانب سے خراب رویے پر مزید بپھر گئے اور پھر ہمیں کئی ایک ناخوشگوار واقعات دیکھنے کو ملے ۔ کہیں مجمع نے دیوار پھلانگ کر ٹریفک پولیس کے دفتر میں گھسنے کی کوشش کی تو کہیں مرکزی گیٹ توڑ دیا گیا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کو طلب کیا گیا جس نے وہاں موجود عام شہریوں پر ڈنڈے برسا کر گھر واپس جانے پر مجبور کردیا۔ اس صورتحال کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کے وزیر داخلہ نے براہ راست مداخلت کرتے ہوئے مہم کو فی الفور 15 دن کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کیا مگر صورتحال پھر بھی نہ سنبھلی تو اس مدت کو ایک ماہ تک توسیع دے دی گئی۔
کل شہر قائد میں جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ شہری جو آج تک بغیر لائسنس گاڑی چلاتے رہے اور ایک ہی دن ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے پہنچ گئے؟ یا پھر ٹریفک پولیس کا محکمہ جس کے سربراہ نے اعلان کرنے میں جتنی جلدی دکھائی اتنی مستعدی انتظامات میں نہیں دکھائی؟ اگر غیر جانبدار رہتے ہوئے دیکھا جائے تو اس خراب صورتحال کی زیادہ ذمہ داری محکمہ پولیس پر آتی ہے۔
کراچی نہ صرف رقبے بلکہ آبادی کے اعتبار سے بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں کی کل آبادی 2 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے لیکن حکومت اور سرکاری محکموں کی جانب دستیاب سہولیات ناکافی ہیں اور یہی معاملہ محکمہ ٹریفک پولیس کا بھی ہے۔ اس وقت کراچی میں تقریباً 38 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اور ان کی تعداد روزانہ سینکڑوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ جبکہ صرف 10 سے 12 فیصد افراد گاڑیاں و موٹر سائیکل چلانے کا اجازت نامہ رکھتے ہیں۔ دیگر 90 فیصد افراد کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے مہم شروع کی جائے لیکن اس سے قبل مکمل تیاری اور شہریوں کی سہولت کو ملحوظ خاطربھی رکھا جانا چاہیے۔
گذشتہ روز ہونے والے ہنگامے کے بعد جہاں صوبائی وزارت داخلہ نے اس خصوصی مہم کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیا وہیں ڈی آئی جی صاحب کو بھی انتظامات بہتر بنانے کا خیال آیا اور انہوں نے ٹریفک پولیس کے دفاتر میں ہفتہ وار چھٹیاں ختم کرنے، اضافی عملہ تعینات کرنے اور اوقات کار میں اضافے کا فیصلہ کیا۔ ”دیر آید درست آید ” کے مصداق ہمیں ان فیصلوں کو سراہنا چاہیے لیکن کَل ٹریفک پولیس کی شاخوں پر موجود لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ اقدامات ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔
محکمہ ٹریفک پولیس کو ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کا طریقہ کار آسان بنانا ہوگا جس سے نہ صرف عام شہریوں بلکہ خود انہیں بھی انتظامی معاملات میں آسانی میسر آئے گی۔ اس ضمن میں نادرا کی مدد سے درخواستوں کے حصول کے لیے اضافی سینٹرز کے قیام، چالان جمع کروانے کے لیے مختلف بینکوں کی خدمات اور طبی معائنے سرکاری اسپتالوں سے کروائے جاسکتے ہیں۔ اس سے کراچی کے لاکھوں افراد کو صرف چار شاخوں پر جمع ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ مختلف مراحل اپنی سہولت کے اعتبار سے طے کرسکیں گے۔ کراچی میں موجود گاڑیوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بھی ڈرائیونگ لائسنس کی مہم کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً پہلے مرحلے میں صرف کاروباری (کمرشل) گاڑیاں چلانے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ بعدازاں بغیر اجازت نجی گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے۔ گو کہ مجوزہ طریقہ کار نسبتاً زیادہ وقت طلب معلوم ہوتا ہے لیکن دہائیوں پرانے مسئلے کو جادو کی چھڑی (یعنی پولیس کی لاٹھیوں) سے حل کرنے کی کوشش سے بدرجہ بہتر ہے۔
امریکی شہر نیو یارک کی مجموعی آبادی تقریباً 2 کروڑ ہے اور وہاں ٹریفک پولیس محکمے کی 6 شاخیں ہیں۔ بھارت کے دارالحکومت اور مسائل کے اعتبار سے کراچی سے ہم آہنگ دہلی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے اور وہاں ڈرائیونگ لائسنس کے معاملات دیکھنے کے لیے 5 مستقل دفاتر قائم ہیں۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کراچی میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ٹریفک پولیس کی مستقل شاخوں میں اضافہ بھی ازحد ضروری ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں جو ہر کام آخری وقت پر کرنے کے عادی ہیں۔ یقیناً محکمہ ٹریفک پولیس ایسے شہریوں کی تربیت نہیں کرسکتی ہے لیکن بہرحال اپنے انتظامات کو ایسی شکل دے سکتی ہے جس سے صورتحال کو خراب ہونے سے بچایا جاسکے۔