اب تک بہت سے لوگ بالخصوص کراچی کے شہری بخوبی جان چکے ہوں گے کہ ٹریفک پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار ہونے والے ٹریفک وائلیشن ایویڈینس سسٹم (TVES) کا استعمال شروع کردیا ہے۔ اس کے ذریعے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے گھروں پر چالان بمع تصویری ثبوت بھیجے جا چکے ہیں۔ محکمہ ٹریفک پولیس کی تاریخ میں اس طرز کے نظام کی مثال نہیں ملتی۔
جو لوگ اب تک اس جدید نظام کے بارے میں نہیں جانتے ان کے لیے اس کا مختصراً تعارف پیش ہے۔ کراچی میں موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے ایک نجی ادارے (ٹیلی نار) کی مدد سے یکم جنوری 2016 بروز جمعہ سے TVES کا استعمال شروع کیا جا چکا ہے۔ اس نظام کا مقصد ٹریفک قوانین کی پاسداری یقینی بنانا اور خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو گھر کی دہلیز پر برقی چالان بمع ثبوت فراہم کرنا ہے۔ یہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟ آئیے کا مزید تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
کراچی بھر میں متعدد شاہراہوں پر CCTV کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ ان کیمروں کے مقاصد میں سے ایک ٹریفک کی صورتحال پر نظر رکھنا بھی ہے۔ انہی کیمروں کی مدد سے سڑک پر موجود ٹریفک اشاروں اور وہاں سے گزرنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی گاڑی اشاروں کو توڑنے ہوئے یا کسی دوسرے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزر جائے تو کیمرے میں اس کا ریکارڈ محفوظ ہوجاتا ہے۔ ریکارڈ شدہ ویڈیو اور تصاویر کی مدد سے خلاف ورزی کرنے والی گاڑی اور اس کے مالک سے متعلق تمام معلومات شہری پولیسی رابطہ کمیٹی (CPLC) کو ارسال کردی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بے ہنگم ٹریفک کے باعث کراچی میں سالانہ 400 ارب روپے کا ایندھن ضائع ہوتا ہے
بعض شاہراہوں پر CCTV کی عدم موجودگی کے باعث پولیس اہلکار اور موبائل وینز کو جدید کیمرے سے لیس کر کے ٹریفک پر نظر رکھی جارہی ہے۔ اس کا مقصد بھی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کے خلاف تصویری ثبوت اکھٹا کرنا ہے۔ یہ طریقہ کار ان علاقوں میں بھی مفید ہے کہ جہاں CCTV کیمرے کی ریکارڈ شدہ ویڈیو کا معیار بہت اچھا نہیں ہے۔
ایک بار ویڈیو یا تصویری ثبوت حاصل ہوجانے کے بعد اسے کراچی محکمہ پولیس کے TVES شعبہ کو ارسال کردیا جاتا ہے۔ فی الوقت یہ شعبہ گارڈن، ڈیفینس میں قائم ٹریفک پولیس کے صدر دفتر میں تمام کام انجام دے رہا ہے۔ یہاں ویڈیو اور تصاویر کی موجودگی میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیا گاڑی چلانے والے نے واقعی قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں؟ اگر جرم ثابت ہوجائے تو ایک برقی چالان بذریعہ ڈاک (کوریئر) خلاف ورزی کرنے والی گاڑی کے مالک کو بھیج دیا جاتا ہے۔
اب آتا ہے دوسرا مرحلہ: چلان موصول ہونے کے بعد کیا کیا جائے؟ کیا چالان بھرنا بھی اتنا ہی آسان ہے کہ جتنا اسے گھر بیٹھے وصول کرنا؟
مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ چالان وصول نہیں ہوا ہوگا۔ دعا ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہو لیکن اگر آپ نے کبھی قانون کی خلاف ورزی کی تو گھر پر موصول ہونے والی چالان کی شکل کچھ ایسی ہوگی:
اس چالان میں گاڑی اور اس کے مالک کی تمام معلومات درج ہوتی ہیں۔ گاڑی کا انجن نمبر، رجسٹریشن نمبر، چیسز نمبر وغیرہ کے علاوہ کس قانون کی خلاف ورزی کی اور کہاں کی گئی؟ یہ تمام معلومات لکھی ہوتی ہیں۔ زیادہ تر قوانین کی خلاف ورزی پر صرف 300 روپے کا چالان بھیجا جاتا ہے جو میرے خیال سےایک عام آدمی کے لیے معقول جرمانہ ہے۔
یہ بھی دیکھیں: کاواساکی H2 سُپر بائیک پر کراچی کی سیر!
چالان بھرنے کے لیے TVES ٹریفک پولیس کی متعدد شاخوں کے نام برقی چالان ہی پر موجود ہیں۔ اگر آپ وہاں نہ جانا چاہیں تو پھر کسی بھی قریبی ٹیلی نار فرنچائز پر بھی جمع کرواسکتے ہیں۔ اگر آپ اسے نظر انداز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو نیچے موجود انتباہ ضرور پڑھ لیجیے جس میں واضح لکھا ہے کہ چالان کی بروقت ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں گاڑی کے مالک کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں چالان کی ادائیگی تک گاڑی فروخت کرنے کے باوجود اس کی ملکیت منتقل کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
پہلے پہل اس نظام کو آزمائشی طور پر چند علاقوں تک محدود رکھا گیا تاہم اس کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اب اس کا دائرہ کار دیگر علاقوں تک بھی پھیلایا جارہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ چالان بھیجے جاچکے ہیں جن میں سے اکثریت نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے چالان وقت پر ادا بھی کردیئے ہیں۔ چونکہ اس چالان میں تصویری ثبوت بھی شامل ہے لہٰذا کسی بھی شخص کے لیے اسے غلط ثابت کرنا قدرے مشکل کام ہے۔ اس نظام کے لاگو ہوجانے سے ٹریفک قوانین میں خلاف ورزیوں کی شرح بھی کم ہورہی ہے۔ ڈرائیور صاحبان ٹریفک اشاروں اور دیگر قوانین کا خصوصی خیال رکھ رہے ہیں بالخصوص ان شاہراہوں پر CCTV کیمرے کی مدد سے گاڑیوں کی نقل و حرکت ریکارڈ کی جارہی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ محکمہ ٹریفک پولیس میں اس طرز کے جدید نظام کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی تاہم ہر نئے نظام کی طرح اس میں بھی چند خامیاں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر برقی چالان کی ادائیگی کے لے مختلف شاخوں کے نام فہرست میں درج ہے تاہم ان کا مکمل پتہ شامل نہیں۔
اس کے علاوہ بتائے گئے پولیس تھانوں میں سے کئی ایک میں ادائیگی کا نظام اب تک لگایا ہی نہیں گیا۔ ساحل سمندر کے قریب موجود پولیس اسٹیشن بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ برقی چالان میں دیئے گئے تمام پولیس اسٹیشن پر یہ فی الحال یہ چالان ادا نہیں ہوسکیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ چالان جمع کروانے کے لیے بیان کیے گئے متبادل طریقہ یعنی ٹیلی نار کی بہت سے فرنچائز پر بھی رجسٹریشن نمبر کی عدم فراہمی کے باعث چالان جمع نہیں کروایا جاسکتا۔
کراچی ٹریفک پولیس کی ویب سائٹ دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ٹریفک وائلیشن ایویڈینس سسٹم (TVES) پر عمل درآمد ہوتا دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ جلد روشنیوں کے شہر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر قابو پا لیا جائے گا۔ پھر ہم دنیا کے دیگر ترقی یافتہ شہروں کے باشندوں کی طرح وہ دن دیکھ سکیں گے کہ جب ہماری سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں انتہائی مہذب انداز سے قوانین کا احترام کرتے ہوئے سفر کریں گی، کوئی غلط سمت سے نہیں آئے گا، کوئی اشارہ توڑنے کی ہمت نہ کرے گا اور ٹریفک جام کے مسائل بھی دور ہوجائیں گے۔ مجھے تو اس وقت کا شدت سے انتظار ہے، کیا آپ کو بھی؟