مقامی آٹو انڈسٹری تباہی کے دہانے پر، PAMA

0 190

جولائی 2019ء میں سیلز میں تقریباً 50 فیصد کمی کے ساتھ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے حالات مکمل طور تباہ کن ہو چکے ہیں۔ مقامی آٹو سیکٹر کی موجودہ حالت غلط سمت میں قدم بڑھا چکی ہے اور اس کے پٹری پر جلد واپس آنے کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔ حکومت کی موجودہ پالیسیوں کی وجہ سے فروخت کے اعداد و شمار آئندہ مہینوں میں مزید نیچے جانے کا خدشہ ہے کہ جو ایک ایسی صنعت کے لیے تباہ کُن ہو سکتا ہے کہ جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ماضی قریب میں چند ایسے اقدامات اٹھائے کہ جو آٹو سیکٹر اور اس سے منسلک دیگر چھوٹی صنعتوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوئے ہیں۔ پچھلی حکومت نے آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی ‏2016-21ء‎ (ADP) متعارف کروائی تھی جس میں ملک میں آنے والے نئے اداروں کو کئی فائدے پیش کیے گئے تھے۔ اس نے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں زبردست اضافہ کیا کیونکہ متعدد یورپی اور کوریائی اداروں نے گرین فیلڈ اسٹیٹس لے کر یہاں اپنے پروڈکشن پلانٹس تعمیر کرکے گاڑیاں اسمبل کرنے کا راستہ پا لیا تھا۔ لیکن یہ صورت حال زیادہ عرصے برقرار نہیں رہی کیونکہ نئی حکومت نے معاملات کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کیا جو نئی کمپنیوں کے علاوہ مارکیٹ کے موجودہ اداروں کے لیے بھی تباہ کن رہے۔ اس نے گاڑیوں پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا دیں کہ جنہوں نے فروخت پر بدترین اثرات مرتب کیے۔ نئے اداروں کی اکثریت نے اپنی لائن اَپ میں ہائی اینڈ کاریں متعارف کروائی ہیں اور چند وجوہات کی بناء پر اُن کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے انہیں فروخت کرنا اب ایک بہت مشکل کام بن گیا۔ 

مقامی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان نے قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کی راہ ہموار کی کیونکہ پرزوں اور اُن کو بنانے کے لیے استعمال ہونے والا خام مال دوسرے ملکوں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں صنعت کی جانب سے 5,50,000 یونٹس سالانہ بنانے کی کوششیں ایک خواب ہی رہیں گی۔ سیلز میں مزید کمی کی صورت میں سالانہ 225 ارب روپے کے ریونیو کا خسارہ ہوگا، جو ہرگز اچھا شگون نہیں ہے۔ روزگار براہِ راست متاثر ہوگا اور تقریباً 18 لاکھ ملازمتیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ نئے اداروں نے طویل المیعاد اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنے پلانٹس کی تعمیر میں کئی ملین کی سرمایہ کاری کی ہے، اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مستقل پالیسیوں کے ذریعے انہیں اپنے سرمایہ کاری منصوبوں کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کرے۔ 

مقامی گاڑیوں کی فروخت میں بڑی کمی: 

اس وقت موجودہ آٹو مینوفیکچررز، جنہیں بگ تھری کہا جاتا ہے، بھی صورت حال کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ ان کی سیلز بھی تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2019ء میں پاک سوزوکی کی فروخت میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 23 فیصد کمی آئی۔ اس کی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والی ویگن آر تک کی فروخت میں اس عرصے میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔ ہونڈا اٹلس کی فروخت میں جولائی 2019ء میں 66فیصد کمی آئی کہ جس میں یہ صرف 1694 یونٹس فروخت کر پایا جبکہ جولائی 2018ء میں اس نے 4981 یونٹس فروخت کیے تھے۔ ہونڈا سٹی اور سوِک کی مجموعی فروخت 1452 یونٹس رہی جو پچھلے سال کے 4909 یونٹس کے مقابلے میں 68 فیصد کی کمی ہے۔ ٹویوٹا انڈس کا حال بھی کچھ الگ نہیں ہے کہ جو سیلز میں 56 فیصد کمی کے ساتھ بحران کی زد میں ہے۔ کمپنی کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ماڈل ٹویوٹا کرولا جولائی 2018ء میں 4566 یونٹس کے مقابلے میں 57 فیصد کمی کے ساتھ 1981 یونٹس کی فروخت تک پہنچ چکا ہے۔ 

تباہ کُن FED: 

مندرجہ بالا اعداد و شمار کا سبب بننے والا ایک اور عنصر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) ہے کہ جسے حکومت نے 2.5، 5 اور 7.5 فیصد کے حساب سے تین مختلف اقسام کی مقامی طور پر بننے والی تمام گاڑیوں پر لگا دیا ہے۔ اس سے قبل 10 فیصد FED صرف 1700cc اور اس سے زیادہ کے انجن رکھنے والی گاڑیوں پر لگتا تھا۔ البتہ حکومت نے حالیہ بجٹ میں اس کے دائرے کو وسیع کردیا کہ جس کا نتیجہ مقامی آٹو انڈسٹری کے لیے تباہ کُن صورت میں نکلا ہے۔ 

آٹومیکرز پیداوار روکتے ہوئے: 

FED اور روپے و ڈالر کی شرح کے عناصر ملے تو آٹو مینوفیکچررز اپنی پیداوار اور ملک میں توسیعی منصوبوں پر پر ازسر نو غور کرنے پر مجبور ہوئے۔ تقریباً 140 ارب روپے کی سرمایہ کاری مقامی آٹو سیکٹر میں حال ہی میں کی گئی اور جہاں تک نئے اداروں کا تعلق ہے کہ ان کے تقریباً 1.3 ارب ڈالرز سرمایہ کاری کے پروسس میں ہیں۔ لیکن موجودہ بدترین حالات نے انہیں اپنی سرمایہ کاری روکنے اور کم فروخت کی وجہ سے اپنی پیداوار گھٹانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ٹویوٹا انڈس نے حال ہی میں اپنی پیداوار کو ہرہفتے 5 دن تک محدود کیا ہے جبکہ ہونڈا اٹلس نے جولائی 2019ء میں 10 سے زیادہ دن تک اپنی پیداوار روکے رکھی جس کی وجہ ادارے کی انوینٹری میں گاڑیوں کی بڑی تعداد میں موجودگی تھی۔ یہ بہت مایوس کُن اور حوصلہ شکن صورت حال ہے، مارکیٹ میں پہلے سے موجود اداروں کے علاوہ نئے اداروں کے لیے بھی۔ خاص طور پر نئے ادارے کہ جو وہ فوائد نہیں حاصل کر پائے کہ جس کی اُمید انہوں نے ملک میں سرمایہ کاری کرتے وقت کی تھی۔ 

لوکلائزیشن پر اثرات: 

یہ صورت حال ملک میں سپلائرز سے مقامی طور پر کی جانے والی خرید پر بھی براہِ راست اثرات ڈالے گی۔ گاڑی کی کُل قیمت میں سے 50 سے 60 فیصد اس میں نصب مقامی پارٹس کی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سینکڑوں مقامی وینڈرز گاڑیوں کی فروخت میں ہونے والی اس کمی سے متاثر ہوں گے۔ بالآخر یہ ماضی قریب میں لوکلائزیشن کے لیے کی گئی تمام محنتوں پر پانی پھیر دے گی۔ 

روزگار کے لیے خطرہ: 

آٹوموبائل انڈسٹری کے علاوہ متعدد دیگر صنعتیں جیسا کہ انجینئرنگ، پلاسٹک، ربڑ، آٹو پارٹس وغیرہ بھی موجودہ اقتصادی سست روی کے عمل سے براہ راست متاثر ہو رہی ہیں۔ نتیجتاً مقامی آٹو انڈسٹری میں ملازمتوں کے مواقع سنگین خطرات سے دوچار ہیں اور ڈاؤن سائزنگ کا عمل بس شروع ہونے ہی والا ہے۔ 3 لاکھ افراد کا براہِ راست روزگار آٹو سیکٹر سے وابستہ ہے، جو متعلقہ صنعتوں میں تقریباً 25 لاکھ افراد کے بالواسطہ روزگار کا سبب ہے۔ آٹو مینوفیکچررز کے پیداواری دنوں میں کمی کا نتیجہ بالآخر روزگار میں واضح کمی کی صورت میں نکلے گا۔ 

بہرصورت حکومت کے لیے نقصان دہ صورت حال: 

ریونیو کلیکشن کے زاویے سے حکومت کی پالیسیاں بدترین ثابت ہوئی ہیں۔ ایک گاڑی کی کُل قیمت میں سے 30 سے 38 فیصد حصہ ٹیکس کا ہوتا ہے جو صارف کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ فروخت میں ہونے والی اتنی بڑی کمی کا مطلب ہے ٹیکس کلیکشن میں بھی بڑی کمی۔ یوں حکومت کو 3 ارب ماہانہ کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

بہرصورت یہ سب کے لیے نقصان دہ حالات ہیں، حکومت، آٹو مینوفیکچررز، متعلقہ صنعتوں اور واقعتاً صارفین سب کے لیے۔ حکومت کو آٹوموبائل انڈسٹری کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں استحکام اور تسلسل لانے کی ضرورت ہے۔ شرحِ تبادلہ کو کنٹرول کرنا چاہیے اور FED کے نفاذ کو واپس کرنا چاہیے تاکہ اس شعبے کو آگے بڑھنے میں مدد ملے۔ پالیسیاں آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی ‏2016-21ء‎ کو مدنظر رکھ کر بنانی چاہئیں اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو محفوظ ماحول دینا چاہیے۔ 

اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آٹوموبائل دنیا کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.