مقامی آٹو سیکٹر اور اس کی ترقی کو بچانے کے لیے آٹو مینوفیکچررز نے واضح الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی امپورٹ یعنی درآمد کی پالیسی پر حکومت کی جانب سے کسی رعایت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے ایک اجلاس 26 اگست 2019ء کو ہونا متوقع ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ اس اجلاس کی صدارت کریں گے۔ اس اجلاس میں گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے مختلف پہلوؤں زیرِ غور آئیں گے اور نئی اسکیم متعارف کروائے جانے کا بھی امکان ہے کہ جو کمرشل امپورٹرز کو چند پابندیوں (QRs) کے ساتھ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دے گی۔ لیکن ڈائریکٹر جنرل پاکستان آٹوموٹِو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) کے ڈائریکٹر جنرل عبد الوحید خان نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے کیونکہ انہیں اس اجلاس کے لیے دعوت نہیں دی گئی۔ ان کے مطابق آٹوموبائل انڈسٹری کے مستقبل کے حوالے سے اہم ترین اجلاس میں شامل نہ کیے جانے پر انہیں حیرت ہے۔ حتیٰ کہ نئے سرمایہ کار جو ملک میں نئے پروڈکشن پلانٹس لگا رہے ہیں، وہ بھی شامل نہیں۔ ایسوسی ایشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے محض اپنا ریونیو بڑھانے کے لیے کمرشل امپورٹرز کے ذریعے گاڑیاں درآمد کرنے کا دائرۂ کار بڑھانے کے لیے حکومت تک رسائی حاصل کی ہے۔
مزید برآں، آٹو انڈسٹری کو FBR کی جانب سے استعمال شدہ گاڑیوں کی امپورٹ پالیسی میں ترمیم کی تجویز پر بھی بہت افسوس ہے۔ آٹو سیکٹر پہلے ہی حکومت کی جانب سے نان-فائلرز کے نئی گاڑیاں خریدنے پر پابندی عائد کرنے کی وجہ سے بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال آٹوموبائل انڈسٹری کے لیے ایک نشیب و فراز کا حامل رہا ہے کیونکہ کیونکہ پالیسیاں بار بار اور مسلسل تبدیل ہوئی ہیں۔ حکومت نے آٹوموبائلز پر اضافی ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر حالات کو مزید سنگین کردیا ہے۔ پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے ملک کی معیشت برے حالات کا شکار ہے اور اسی کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ہر چیز اوپر جا رہی ہے، سوائے اس شعبے کی بہتری اور گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کے۔
ایسے معاشی حالات میں گاڑیوں کی درآمدات پر کوئی بھی رعایت دینا مقامی آٹو سیکٹر کی تباہی کا سبب بنے گا کہ جو پہلے ہی بحران سے دوچار ہے۔ دوسری جانب PAMA نے کامرس ڈویژن کو سراہا ہے کہ جو تمام تر بیرونی دباؤ کے باوجود کار امپورٹ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ کرنے پر ڈٹا ہوا ہے۔ حکومت کو ملک میں لوکلائزیشن کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے موجودہ آٹو مینوفیکچررز کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری سے مسلسل آگاہ کیا جا تا رہا ہے۔ چند اداروں نے مارکیٹ کو طلب کو پورا کرنے کے علاوہ اپنی پیداواری گنجائش کو بڑھانے کے لیے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ کمرشل امپورٹرز کو درآمدی پالیسی کا استحصال کرنے کی اجازت دینے سے پہلے یہ تمام کوششیں بھی حکومت کے مدنظر ہونی چاہئیں۔ پالیسی میں کوئی بھی رعایت دینا مقامی آٹو انڈسٹری کی مکمل بندش کا سبب بنے گا کہ جو پہلے ہی اپنے بدترین حالات سے گزر رہی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ فائنانس ڈویژن کا خیال تھا کہ درآمدی پالیسی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا دائرہ مقدار کے حوالے سے چند پابندیاں (QRs) مقرر کرکے پھیلایا جا سکتا ہے تاکہ کمرشل امپورٹرز کی جانب سے اس کا ناجائز استعمال نہ ہو پائے۔ اُن کے مطابق اس سے آٹو سیکٹر میں مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور ڈیمانڈ اینڈ سپلائی یعنی طلب و رسد کا توازن ٹھیک ہوگا۔ بصورتِ دیگر مقامی آٹو میکرز اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کرکے حد سے زیادہ منافع کما رہے ہیں۔ کامرس ڈویژن سمجھتا ہے کہ امپورٹرز درآمدی پالیسی کا غلط استعمال کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ منی لانڈرنگ اور ملک میں فارن ایکسچینج یعنی غیر ملکی زرِ مبادلہ کے غیر قانونی بہاؤ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ بہرحال، اس کا انحصار حکومت پر ہے کہ وہ ایسی پالیسی اختیار کرے کہ جو مقامی آٹو سیکٹر کو بھی نقصان نہ پہنچائے اور ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے والے غلط استعمال کی اجازت بھی نہ دے۔
اپنے خیالات نیچے تبصروں میں پیش کیجیے۔ مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔