ٹویوٹا ڈیلرشپ پر دھوکا دہی کا انکشاف؛ نیب نے تحقیقات کا آغاز کردیا
آج کے اخبارات میں قومی ادارهِ احتساب (نیب) کی جانب ایک اعلان شائع کیا گیا ہے جس میں ٹویوٹا گارڈن موٹرز، لاہور کے مالکان اور سیلز آفیسر کے خلاف مبینہ دھوکا دہی سے متعلق تحقیقات شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ نیب کے دیئے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ڈیلرشپ مالکان اور سیلز آفیسر نے مبینہ طور پر صارفین سے گاڑیوں کی بُکنگ/فروخت کے عوض وصول کی جانے والی رقوم میں گھپلا کیا ہے۔ جبکہ متعلقہ ڈیلرشپ کے سربراہ نے اپنے ادارے پر عائد کیے جانے والے الزامات کو رد کرتے ہوئے تمام قضیے کا ذمہ دار ایک سیلز مین کو قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے جب ہم نے مزید تحقیقات کیں تو علم ہوا کہ ٹویوٹا گارڈن موٹرز میں گاڑیوں کی خرید و فروخت میں 6 کروڑ روپے سے زائد کا گھپلا کیا گیا ہے۔ ہمارے ذرائع نے بتایا کہ ایک سیلز آفیسر نے متعدد سرمایہ کاروں کے ذریعے 30 کرولا گاڑیاں بُک کروائیں اور پھر انہیں مختلف لوگوں کو اضافی قیمت پر فروخت کیا۔ اس خریدو فروخت سے حاصل ہونے والا تمام پیسہ مبینہ طور پر سیلز آفیسر توفیق احمد نے ہڑپ کرلیا۔ ان 30 ٹویوٹا کرولا کو مختلف قومی شناختی کارڈ پر بُک کروایا گیا تھا اس لیے ان سرمایہ کاروں کے پاس گاڑیوں کی ملکیت کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے جن کے پیسوں سے یہ گاڑیاں بُک کروائی گئیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: 2016 ٹویوٹا کرولا GLi آٹومیٹک پر ایک صارف کا غیر جانبدار تجزیہ
یہ تمام معاملہ اتنا گھمبیر ہے کہ اسے سمجھنا اور سمجھانا دونوں ہی کافی مشکل کام ہیں۔ بہرحال، اس قضیے کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک صاحب نے مبینہ ملزم کو متعدد کرولا گاڑیوں پر سرمایہ کاری کے لیے بڑی رقم فراہم کی۔ مبینہ ملزم نے اس رقم سے گاڑیاں بُک کروائیں لیکن ایک ایسے شخص کا نام اور شناختی کارڈ پر کہ جسے اس تمام معاملات کی خبر بھی نہیں۔ بُک کروائی گئی گاڑیوں کو فروخت کرنے کے لیے مبینہ ملزم نے خریداروں کو جلد فراہمی کا لالچ دیا اور غیرقانونی طریقہ کار سے گاڑی کی رقم حاصل کرلی۔
یہ سارا کچھا چٹھا اس وقت کھلا جب خریدار نے گاڑی کے کاغذات میں نام تبدیل کرنے کی درخواست دی۔ خریدار کی درخواست پر کاروائی شروع ہوئی تو علم ہوا کہ گاڑی کسی اور نام سے بُک کروائی گئی، کسی اور نام سے فروخت کی گئی، کسی اور نام پر اس کی ادائیگی ہوئی اور اب کسی اور نام سے اس کی ملکیت کا دعوی کیا جارہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سرمایہ کاروں نے بھی یہ کہہ کر ان گاڑیوں کی ملکی کا دعوی کیا ہے کہ انہوں نے مبینہ ملزم کو اس مقصد کے لیے بھاری رقم فراہم کی تھی۔اب ٹویوٹا گارڈن موٹرز پر ہونے والے گھپلے میں 30 یا جتنی بھی گاڑیاں فروخت ہوئیں وہ تمام تحویل میں لے لی جائیں گی کیوں کہ قانونی طور پر ان کا کوئی مالک ہی نہیں ہے۔
اس تمام معاملے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنے قارئین کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ گاڑی خریدتے ہوئے اس بات کی ضرور تصدیق کرلیں کہ جس شخص کے نام پر رقم ادا کی جارہی ہے وہی اس گاڑی کا حقیقی مالک ہے یا نہیں۔ گاڑی خریدنے کے لیے کبھی بھی نقد رقم ادا نہ کریں کیوں کہ اس سے پیسے وصول کرنے والا باآسانی مکر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑی کی بُکنگ یا خریداری کے کسی بھی مرحلے میں بغیر اطمینان کیے معمولی رقم بھی آن لائن ٹرانسفر نہ کریں۔ علاوہ ازیں کسی بھی ایسے شخص کو رقم ادا کرنے سے پرہیز کریں جو غیر معمولی جلد بازی یا لالچ دینے کی کوشش کرے۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ گاڑی فروخت کرنے والا شخص پیسوں کی اشد ضرورت بیان کرتے ہوئے گاڑی متعین قیمت سے کم پر فروخت کرنے کا لالچ دیتا ہے اور یوں سادہ لوح خریدار اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فروخت کرنے والا اگر 1-2 لاکھ روپے بطور پیشگی رقم ایزی پیسہ یا آن لائن ادائیگی پر اصرار کرے تو بھی احتیاط سے کام لیں کیوں کہ تمام معاملات کی وضاحت سے قبل دی جانے والی پیش گی رقم وصول کر کے کوئی بھی شخص غائب ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹویوٹا کرولا 2017 کا نیا انداز؛ پہلے سے زیادہ پُرکشش اور شاندار!
پاک ویلز نے جب اس معاملے کے اہم ترین فریق ٹویوٹا گارڈن موٹرز، لاہور کے سربراہ خواجہ جہانزیب صالح سے رابطہ کیا تو انہوں نے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 25 سال سے گاڑیوں کے کاروباری سے وابستہ رہنے اور ایک قابل اعتمار ٹویوٹا ڈیلرشپ ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے صارفین کا اعتماد کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تمام تر قضیے کی ذمہ داری دھوکے باز سیلز آفیسر توفیق احمد کے ساتھ ساتھ ان لالچی سرمایہ کاروں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے گزشتہ چند سالوں کے دوران توفیق احمد سے دوستی گاڑھی اور پھر صرف اپنی ذاتی مفاد کے لیے ادارے کے لیے بتائے گئے طریقہ کار پر عمل کرنے کے بجائے اس کی کھلی خلاف ورزی کی۔
خواجہ جہانزیب نے بتایا کہ ہمارے ادارے سے گاڑی خریدنے کے دعوی دار اشخاص کے پاس ادارے کی کوئی اصلی رسید موجود نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی رقوم نقدی کی صورت میں جمع کروائی یا پھر انہیں مبینہ ملزم توفیق احمد کے حوالے کردیا۔ توفیق احمد نے ان خریداروں کو 20 سے 25 دنوں میں گاڑی کی فراہمی کا یقین دلایا جبکہ ادارے کی جانب سے بُکنگ کے 4 سے 5 ماہ گاڑیاں فراہم کی جاری ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے اپنے ڈیلرشپ پر انگریزی اور اردو زبانوں میں نوٹس آویزاں کیے ہوئے ہیں جن میں خریداروں سے نقد رقم کسی صورت ادا نہ کرنے اوراپنی رقم کے عوض ادارے کی اصلی رسید اپنے ہی نام پر لینے کی درخواست کی گئی ہے۔
ٹویوٹا گارڈن موٹرز کے سربراہ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ گاڑی خریدنے کے دعوی داروں میں سے اکثر توفیق احمد کے رشتے دار ہیں جو فیصل ٹاؤن میں ایک چھوٹا شوروم بھی چلاتے ہیں۔ انہوں نے کسی بھی شخص سے اضافی رقم وصول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنی رقم وصول کرتے ہیں اتنی ہی رقم کی رسید بھی دیتے ہیں اور یہ تمام معلومات متعلقہ حکام کو تحقیقات کے لیے فراہم کردی گئی ہیں۔ گارڈن موٹرز کے سربراہ نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ اس دھوکا دہی سے متاثرہ افراد بھی اس تمام قضیے میں برابر کے ذمہ دار ہیں کیوں کہ انہوں نے حرص اور لالچ میں آ کر ایک غیر اخلاقی طریقے کو اختیار کیا۔ انہوں نے گاڑیاں خریدنے والے تمام صارفین کو مشورہ دیا کہ کسی بھی شخص سے ذاتی یا براہ راست معاملات طے کرنے سے اجتناب کریں اور صرف قابل اعتبار اداروں ہی سے گاڑیوں کی خریداری کریں تاکہ ہر قسم کی دھوکا دہی سے محفوظ رہیں۔ انہوں نے یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ رقم ادا کرنے کے بعد کاغذات، پے آرڈر اور رسیدوں پر موجود ناموں کی تصدیق ضرور کرلیں۔
یہ بھی پڑھیں: حقیقت یا نظر کا دھوکا؟ ہونڈا سِوک 2016 بی ایم ڈبلیو 3 سیریز جتنی بڑی ہے!
چونکہ تمام گاڑیاں ٹویوٹا گارڈن موٹرز پر ہی فروخت کی گئی ہیں اس لیے انہیں اس تمام معاملے میں ایک اہم فریق قرار کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف جلد گاڑی حاصل کرنے کی لالچ میں خریداروں نے ادارے کے کیش کاؤنٹر پر رقم ادا کرنے اور اپنے نام پر رسید وصول کرنے کے بجائے براہ راست مبینہ ملزم کو بینک ڈرافٹ دیئے جس کے عوض اس نے جعلی رسیدیں بنا کر انہیں فراہم کیں۔ اور پھر خریداروں سے وصول ہونے والی رقم کو ایک نئے نام کے ساتھ ادارے میں جمع کروا کر علیحدہ نام سے اصلی رسیدیں حاصل کرلیں۔ جب سرمایہ کاروں کو اندازہ ہوا کہ ان کی سرمایہ کاری کا کوئی حاصل حصول نہیں آرہا تو انہوں نے قومی ادارہِ احتساب میں شکایت درج کروائی جس پر غور کے بعد نیب نے متعلقہ ادارے اور شخصیات کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔