بگ تھری بمقابلہ حکومت – عدالت نے نئی آٹو پالیسی کا نفاذ روک دیا
حکومت کی جانب سے گاڑیوں کے شعبے میں اجارہ داری کے خاتمے کی کوشش کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے دو بڑے اداروں پاک سوزوکی موٹرز اور ٹویوٹا انڈس موٹرز نے نئی آٹو پالیسی برائے سال 2016-21 کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔معزز عدالت نے نئی آٹو پالیسی کے خلاف دونوں کار ساز اداروں کی درخواست منظور کرتےہوئے حکم امتناع بھی جاری کردیا ہے۔ یوں مالی سال 2016-17 کے ساتھ جولائی میں نافذالعمل ہونے والی نئی آٹو پالیسی صرف 40 روز بعد ہی بگ تھری کی ہڈدھرمی کا شکار ہوگئی۔
تقریباً ڈھائی سال کے عرصے میں تیار ہونے والی نئی آٹو پالیسی میں جہاں نئے کار ساز اداروں کے لیے مختلف مراعات فراہم کی گئی ہیں وہیں صارفین کو بہتر گاڑیوں کی فراہی یقینی بنانے کے لیے تمام ہی اداروں کو گاڑیوں میں جدید سہولیات (جیسے امموبلائزر) شامل کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کو بُکنگ کے وقت صرف 50 فیصد رقم وصول کرنے اور جلد از جلد گاڑیوں کی فراہمی یقینی بنانے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹویوٹا اور ہونڈا نئی آٹوپالیسی کی خلاف ورزی کے مرتکب
پاک سوزوکی (Suzuki) اور ٹویوٹا انڈس موٹرز (Toyota) کا موقف ہے کہ آٹو پالیسی میں دی گئی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے انہیں مناسب وقت نہیں دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ گاڑیوں میں امموبلائزر شامل کرنے کے لیے انجن کے بنیادی ڈھانچے میں بھی تبدیلی کرنا ہوگی اور اس کے لیے کم از کم 6 سے 12 ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ یاد رہے کہ نئی آٹو پالیسی کے تحت ہونڈا ایٹلس کو سِٹی، ٹویوٹا انڈس موٹرز کو کرولا XLi جبکہ پاک سوزوکی کو مہران اور کلٹس میں امموبلائزر کی فراہمی یقینی بنانا تھی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ گاڑیوں کے شعبے میں سب سے زیادہ حصہ پاک سوزوکی، ٹویوٹا انڈس موٹرز اور ہونڈا ایٹلس (Honda) کے پاس ہے۔ ایک طرف پاک سوزوکی چھوٹی گاڑیوں کے زمرے میں اکیلا راج کر رہا ہے تو دوسری جانب سیڈان اور دیگر مہنگی گاڑیوں کے زمرے ہونڈا ایٹلس اور ٹویوٹا انڈس موٹرز کے درمیان تقسیم ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جب ان اداروں کی جانب سے اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے انتہائی قدم اٹھایا گیا ہو۔ آٹو پالیسی کی تیاری کے دوران بھی ان اداروں کی جانب سے زبردست لابنگ کی گئی تاکہ نئے اور موجودہ کار ساز اداروں یکساں مراعات حاصل ہوسکیں اور یوں نئے ادارے پاکستان میں کاروبار کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال متعدد بین الاقوامی کار ساز اداروں نے پاکستان میں گاڑیاں متعارف کروانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی جس کے بعد جاپانی اور یورپی اداروں کے درمیان رسہ کشی کا آغاز ہوا تھا۔