بی بی سی ٹاپ گیئر کے نئے میزبانوں کا اعلان
ایک طویل عرصے سے انگریزی زبان میں گاڑیوں کا اہم ٹاپ گیئر محض شور شرابے اور غل غپاڑے کی نظر ہوچکا تھا۔ پروگرام دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ کسی انتہائی پرانی ٹرین پر سفر کر رہے ہیں جس پر چھکا چھک کی آواز کے علاوہ کچھ سننا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پروگرام کی بڑھتی ہوئی غیر مقبولیت نے ایسی افواہوں کو جنم دیا کہ برطانوی ادارہ بی بی سی اس مشہور پروگرام کو ختم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
تاہم بی بی سے نے ٹاپ گیئر کے میزبان جیریمی کلارکسن کو معطل کر کے گاڑیوں کے دیوانگی کی وجہ سے مشہور کرس ایونز کا نام بطور میزبان اعلان کردیا ہے۔ کرس ایونز نے اس پروگرام کو نئی جہت دینے کا عزم ظاہر کیا۔ کرس ایونز کا نام اس وقت مشہور ہوا کہ جب انہوں نے ایک نیلامی میں 1963 فراری 250 جی ٹو او کو 12 ملین پاؤنڈ میں اپنے نام کیا۔ یہ اپنے زمانے کی مہنگی ترین نیلامی تھی۔
اب اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ کرس نہ صرف خود اس پروگرام کی میزبانی کریں گے بلکہ ان کے ہمراہ متعدد ماہرین بھی ہوں گے۔ ان ماہرین میں معروف جرمن خاتون کار ڈرائیور سبین شمٹز اور جیلوپنک اور ایو جیسے معروف میگزین کے لیے لکھنے والے کرس ہیرس شامل ہیں۔ یہ دونوں گاڑیوں کے شعبے میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔
اگر آپ باقاعدگی سے ٹاپ گیئر دیکھتے ہیں تو سبین کا نام ضرور جانتے ہوں گے۔ انہوں نے ٹاپ گیئر کی متعدد اقساط میں پہلے بھی کام کیا ہے۔ یہ خاتون جرمنی میں فورڈ ٹرانزٹ وین کے ذریعے نوربورگرينگ کا چکر لگانے کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے یہ کام جیریمی کلارکسن کے ڈیزل جاگوار میں بنائے گئے 10 منٹ کے ریکارڈ توڑنے کے لیے لگایا تھا۔ سبین کا شمار مشہور جرمن سرکٹ میں سب سے زیادہ چکر لگانے والوں میں ہوتا ہے۔
پروگرام کے تیسرے میزبان سابق ریسنگ ڈرائیور اور گاڑیوں پر لکھنے والے مستند لکھاری ہیں۔ وہ جیلوپنِک، ایوو، آٹو کار جیسے گاڑیوں کے میگزین میں لکھتے ہیں۔ انہوں نے یوٹیوب پر بطور میزبان کئی ایک پروگرامات بھی کیے ہیں۔ ان کا ذاتی یوٹیوب شو کا نام Chris Harris on Cars ہے۔

علاوہ ازیں ایسی بھی خبریں آرہی ہیں کہ بی بی سی ڈیوڈ کولتھرڈ کو بھی اس ٹیم کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ ڈیوڈ فارمولا ون میں گاڑی چلایا کرتے تھے اور حالیہ دنوں بی بی سی ہی کے پروگرام فارمولا ون میں بطور میزبان فرائض انجام دے رہے ہیں۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ بی بی سی کس طرح ان شخصیات کے تجربہ اور مہارت کا فائدہ اٹھا پاتا ہے۔ بلاشبہ بی بی سی کا پہلا ہدف اس پروگرام کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا ہوگا جس کے بعد وہ اسے پہلی جیسی شہرت اور عوامی مقبولیت کے حصول پر نظریں مرکوز کریں گے۔ بی بی سی جیسے ادارے کے لیے یہ کام شاید مشکل اور صبرآزما ہو لیکن ناممکن ہر گز نہیں۔