کچھ لوگوں کے لیے شاید یہ بات حیرت انگیز ہو لیکن اس سے بہت سے شکی لوگوں کے پاکستان میں الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کے مستقبل کے متعلق شک ختم ہو جائیں گے۔ ٹویوٹا ریوو اور فارچیونر کے لانچ کے موقع پر مجھے یاد ہے کہ پاک وہیلز کے حکام نے انڈس موٹر کمپنی کے چیف ایگیزیکٹوعلی اصغر جمالی سے پاکستان میں ایلکٹرک کار کے مستقبل کے بارے میں پوچھا تو اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ
’جی ہاں ہائبرڈ اور ایلکٹرک کار کا ہمارے ملک میں مستقبل ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں ہائبرڈ کار کی چارجنگ سی جڑی تمام مشکلات کا حل نکالنا ہو گا خاص طور پر بجلی کی دستیابی اور ان گاڑیوں کو برقرار رکھنے کے لیے خاص مہارت کا ہونا ضروری ہے۔‘
انڈس موٹر کمپنی کے خود پاکستان میں ٹویوٹا پرئیس بیچنے کی حقیقت سے اوپر دیئے گئے بیان کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہزاروں ہائبرڈ گاڑیاں پاکستان میں آئیں اور دیوان موٹرز کی جانب سے حالیہ چارجنگ سٹیشن متعارف کروانے سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ یہ گاڑیاں کتنا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ آج ہی میں ڈان کے ساتھ نشاط گروپ کے چیرمین میاں منشاء کا انٹرویو پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے نشاط گروپ کے ہنڈائی کو پاکستان میں لانے کے پیچھے کی اصل حقیقت کا آخر کار انکشاف کر دیا۔
’نشاط گروپ اور ہنڈائی کے درمیان حال ہی میں پاکستان میں کار اسیمبلنگ پلانٹ لگانے کا معاہدہ طے پایا ہے جس سے ہم الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیاں پاکستان میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘
اس وقت بنیادی مقصد ایک اور کارساز کو ملک میں لانے کا ہے جو چھوٹی اور کم خرچ والی گاڑیاں بنانے میں مہارت رکھتا ہے جس سے وہ اس مارکیٹ میں پہلے سے موجود کارسازوں کا مقابلہ کریں گے۔ میاں منشاء کے مطابق ان کا ماننا ہے کہ مستقبل الیکٹرک گاڑیوں کا ہے اسی وجہ سے نشاط گروپ اس پر کام کر رہا ہے کہ پاکستان میں یہ آپشن لایا جائے۔ یہ واضع ہے کہ پہلے چند بیچز کو درآمد کیا جائے گا لیکن کمپنی مستقبل میں ان کی مقامی اسیمبلنگ شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کمپنی نے اس پلانٹ کے لیے فیصل آباد میں پہلے سے زمین لے رکھی ہے اور اس منصوبہ پر 120 ملین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی۔ اس وقت شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ اگلے چند سالوں میں یہ توسی پیک کی وجہ سے ایک اور انتہائی منافع بخش پوری آٹو انڈسٹری لگنے والی ہے تو میں پوری طرح آپ سے اتفاق کروں گا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے بننے کا ہمارے اقتصادی اور ثقافتی پہلوؤں پر گہرا اثر پڑے گا۔ لیکن یہ انہیں کس طرح سے متاثر کرے گی؟ اس سوال کا جواب تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا۔ میاں منشاء نے یہ بتایا کہ اس نئی کمپنی میں نشاط گروپ کے 42 فیصد شیئرز ہوں گے جبکہ 18 فیصد ملت ٹریکٹرز اور 10 فیصد ایک جاپانی فرم کے ہوں گے۔ کمپنی کے باقی شیئرز کو ملک کی سٹاک مارکیٹ میں بیچا جائے گا۔
توابھی ہم کیا دیکھ رہے ہیں؟ پیارے قارئین پاکستانی آٹو انڈسٹری ابھی ایک اہم موڑ پر ہے، ترقی کی اس رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو باہمی مفاد پر مبنی پالیسیوں کو متعارف کروانا ہو گا۔ پاکستان میں غیر جاپانی گاڑیوں کی آمد سے مارکیٹ میں پہلے سے موجود کھلاڑیوں کو مقابلہ کے لیے نئی چیزیں لانا ہوں گی۔ جس کے بارے میں میرا ماننا ہے کہ اسے آپ نئی گاڑیوں اور ویرینٹس جیسا کہ سوک ایکس، سیاز، وتارا، فارچیونر، ریوو، اور بی آر وی کے متعارف کروائے جانے سے دیکھ سکتے ہیں جن میں پہلے سے بہتر کوالٹی، کیبن کی سہولتیں، مسافروں کی حفاظت اور سب سے بڑھ کر سٹینڈرڈ فیچرز دیئے گئے ہیں۔