بگ تھری کی اجارہ داری اور نئے کار ساز اداروں کو درپیش ممکنہ مشکلات

0 201

تین جاپانی کار ساز اداروں سوزوکی، ٹویوٹا اور ہونڈا نے طویل عرصے سے گاڑیوں کے شعبے پر راج کیا ہے۔ یہ بات کہنے میں تو آسان ہے کہ آٹو پالیسی کی منظوری کے بعد نئے کار ساز ادارے آئیں گے لیکن بگ تھری کی مضبوط اجارہ داری دیکھتے ہوئے یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ لیکن کیوں؟ آیئے جانتے ہیں۔

دسمبر 2005 میں امریکی کمپنی شیورلیٹ نے نیکسز آٹوموٹیو لمیٹڈ کے ہمراہ پاکستان میں کاروبار کا آغاز کیا۔ نیکسز گاڑیوں کی درآمد اور انہیں شیورلیٹ کے بتائے گئے معیارات پر تیار کر کے فروخت کرنے کا مجاز ادارہ تھا۔ اس سے قبل 1990 کی دہائی میں دیوان فاروق موٹرز لمیٹڈ (DFML) نے ہیونڈائی موٹر کمپنی اور کِیا موٹرز کارپوریشن کی گاڑیاں پاکستان میں تیار کر کے فروخت کرنا شروع کیں تھیں۔ان دونوں ہی برانڈز کی ناکامی میں بگ تھری کی اجارہ داری نے اہم کردار ادا کیا۔ حکومت کے رویے اور پالیسیوں کی وجہ سے بھی یہ ادارے زیادہ عرصے تک اپنا کام جاری نہ رکھ سکے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی آٹو پالیسی کا اعلان: نئے کار ساز اداروں کے لیے خصوصی مراعات شامل

اب جبکہ پالیسی سازوں کے رویوں میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے اور انہوں نے نئی آٹو پالیسی 2016-2021 کے ذریعے نئے غیر ملکی کار ساز ادروں کو پاکستان میں کاروبار کی کھلی دعوت دے ہی دی ہے تو اس حوالے سےامید رکھی جاسکتی ہے کہ بہت جلد پاکستان میں نئی گاڑیوں کی تیاری و فروخت کا آغاز کردیا جائے گا۔ تاہم چند عوامل ایسے ہیں جن پر ہر ادارے کو پوری توجہ دینا ہوگی۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

استعمال شدہ گاڑیوں کی قدر

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ تمام تر خامیوں اور ان پر ہونے والی تنقید کے باوجود سوزوکی مہران اب تک کیوں فروخت ہوتی رہی ہے؟ شاید اس بارے میں کئی لوگوں سے اور بھی سنا ہوگا کہ سوزوکی گاڑیاں بالخصوص مہران استعمال کے بعد اچھی قیمت پر فروخت ہوجاتی ہیں۔ یہ بات بالکل درست اور جاپانی کارساز ادارے کی کامیابی کا کھلا راز ہے۔ اگر آپ نے 1999 میں نئی مہران (تقریباً ڈھائی لاکھ روپے میں) خریدی تھی تو آپ اسی قیمت میں آج بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ سوزوکی پسند کرنے والے اسی بات کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ نئے کار ساز اداروں کو بھی اس ضمن میں ضرور سوچنا ہوگا بالخصوص کِیا موٹرز کو جس کی گاڑیاں بعد از استعمال بہت کم قیمت ہوجانے کی وجہ سے ناپسند کی جاتی رہیں۔

گاڑیوں کے پرزے (اسپیئر پارٹس)

پاک سوزوکی طویل عرصے سے پرانے طرز کی گاڑیاں فروخت کر رہا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نہ اپنانے کی وجہ سے اس پر کافی تنقید کی جاتی رہی لیکن وہی دھاک کے تین پات۔ آخر کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوزوکی گاڑیوں کے پرزے انتہائی آسانی اور سستے مل جاتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جو گاڑی مثلاً مہران کئی دہائیوں سے تیار کی جارہی ہو تو اس کے دروازوں کے ہینڈل سے لے کر بمپر تک ہر چیز باآسانی مل جاتی ہے۔ کسی حد تک یہی وجہ ٹویوٹا اور ہونڈا کی کامیابی کے پیچھے بھی کار فرما ہے۔ ان اداروں کے پرزے نہ صرف مجاز ڈیلرز بلکہ مقامی مارکیٹ سے بھی مناسب قیمت پر مل جاتے ہیں۔ نئے پرزوں کے علاوہ پرانے اور استعمال شدہ پرزے بھی کابلی مارکیٹ میں سستے مل جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کم و بیش 5 لاکھ روپے میں دستیاب بہترین گاڑیوں کی فہرست

موجودہ کارسازوں کے علاوہ ماضی میں جس ادارے نے بہترین ہیچ بیک پیش کی وہ شیورلیٹ تھا۔ شیورلیٹ جوائے اپنی حفاظتی سہولیات، آرامدے سفر اور بہترین مسافت کی وجہ سے خاصی منفرد تھی۔ لیکن ان تمام خصوصیات کے باوجوداسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا جس کی بنیادی وجہ اسپیئر پارٹس کی اضافی قیمت اور متعدد شہروں میں عدم دستیابی تھی۔

گاڑیوں کی مینٹی نینس

جاپانی اور اطالوی گاڑیوں کے برعکس پاکستان میں جاپانی گاڑیوں کی دیکھ بھال یعنی مینٹی نینس کافی آسان اور کم قیمت ہے۔ اس وقت پاکستان میں کام کرنے والے تینوں اداروں نے تمام ہی اہم شہروں میں اپنے سروسز سینٹرز قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان میں گاڑیوں کی سروس مقررہ قیمت پر کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے لوگ کسی متبادل جگہ سے گاڑی کی سروس کروانے کے بجائے ان ہی مجاز سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر آپ سوزوکی یا ٹویوٹا میں محو سفر ہیں اور عین بیچ سڑک پر آپ کی گاڑی خراب ہوجائے تو اس کا مکینک باآسانی مل جائے گا۔ لیکن اگر آپ بی ایم ڈبلیو میں سفر کر رہے ہیں اور وہ کسی جگہ مسئلہ کا شکار ہوجائے تو شاید ہی آپ کو گاڑی ٹھیک کرنے والا مناسب مکینک ملے۔ اگر خوش قسمتی سے مل بھی گیا تو بڑی گاڑی دیکھ کر آپ کے اچھے خاصے پیسے بھی اینٹھ لے گا۔

شعبہ پر اقتصادی گرفت

کارخانے میں کوئی بھی چیز زیادہ تعداد میں بنائی جائے تو اس کی قیمت کم ہوجاتی ہے۔ اس طریقہ کار پر عمل کر کے کار ساز ادارے بھی اچھا خاصہ منافع کما رہے ہیں۔ اضافی منافع اور مسابقت کی کمی کے باعث ان اداروں کی اجارہ داری مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جارہی ہے اور اب وہ اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ اپنی من مانی قیمتوں پر گاڑیاں فروخت کریں۔

یہ بھی پڑھیں: استعمال شدہ گاڑی خریدنے سے پہلے انجن کی 5 چیزیں ضرور دیکھیں

گو کہ تینوں ہی ادارے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن پاک سوزوکی ان میں سب سے آگے ہے۔ اگر ان کی گاڑیوں کی فروخت میں کمی واقع ہوئی تو یہ ان کی قیمتیں کم کر کے بھی لوگوں کو متوجہ کرسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف نئے کار ساز اداروں کو اس حوالے سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ گوکہ حکومت کی جانب سے بہت سی مراعات پیش کی جارہی ہیں لیکن ابتدائی طور پر سرمائے کے لیے اچھی خاصی رقم خرچ ہوگی اور پھر نئے کارخانوں میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی محدود تعداد کی وجہ سے قیمت کم رکھنا شاید ان اداروں کے لیے مشکل صورتحال کھڑی کردے۔

بہرحال، نئی آٹو پالیسی منظور ہوجانے کے بعد اب گیند کار ساز اداروں کے کوٹ میں ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ ماضی کے نتائج سے سبق سیکھتے ہوئے پاکستاین صارفین کا اعتماد جیتنے کے لیے کس حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.