گاڑیوں کی درآمدات پر ٹیکس میں اضافہ؛ مقامی کار ساز اداروں کی چاندی
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ مقامی سطح پر گاڑیاں تیار کرنے والوں کو حقیقی معنی میں سر کھجانے کی فرصت نہیں مل رہی۔ پاکستان میں گاڑی رکھنے کے خواہشمند ہر دوسرے فرد کی پسند ٹویوٹا کرولا کی فروخت تو جیسے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اگر آپ آج نئی ٹویوٹا کرولا خریدنے کے لیے نکلیں تو خوش قسمتی سے تین چار ماہ میں تو مل ہی جائے گی۔ دوسری طرف پاک سوزوکی بھی پنجاب سبز ٹیکسی اسکیم کی بدولت بہت مصروف ہے۔ گاڑیوں کی بیرون ممالک سے پاکستان درآمد میں بھی تیزی نظر آرہی ہے۔ صرف گذشتہ چار ماہ کے دوران پچھلے مالی سال کے مقابلے دوگنا گاڑیاں درآمد کی جاچکی ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یورپی اور روسی سرمایہ کار بھی پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے سے منسلک ہونا چاہتے ہیں۔ ووکس ویگن بھی پاکستان میں اپنی گاڑیاں لے ہی آتی لیکن بدقسمتی سے ڈیزل گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے تینوں بڑے ادارے آئندہ سالوں میں جدید ماڈلز بھی پیش کرنے والے ہیں جن میں ہونڈا سِوک 2016 بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جاپانی اور یورپی کار ساز اداروں کے درمیان رسہ کشی کا آغاز
یہ کہنا حق بجانے ہوگا کہ گاڑیوں کے شعبے سے منسلک افراد کے لیے صورتحال نہ صرف بہتر ہورہی ہے بلکہ مستقبل بھی کافی روشن نظر آرہا ہے۔ نہ صرف کار ساز اداروں بلکہ حکومت کو بھی اس سے بھرپور فائدہ ہو رہا ہے۔ جاپانی ین کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 25 فیصد اضافہ بھی دیکھنے کو ملا جس کی وجوہات میں گاڑیوں کے پرزوں کی درآمدات بھی شامل ہے۔ اسٹیل کی قیمت میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور مالی سال 2014-15 میں فی ٹن 860 ڈالر ملنے والا اسٹیل مالی سال 2015-16 کی پہلی سہ ماہی میں 640 ڈالر فی ٹن پر آگیا۔ جس سے کار ساز اداروں کو بھاری سرمائے کی بچت ہوئی۔
اس کے باوجود مقامی سطح پر گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں نے صارفین کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی اور گاڑیوں کی قیمتیں اب بھی ساکت ہیں۔ گذشتہ مالی سال 2014-15 کی پہلی سہ ماہی میں تیار و فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 27,630 تھی جو رواں مالی سال 2015-16 کے پہلے تین ماہ کے دوران دگنا ہو کر 44,372 تک پہنچ گئی۔ پھر بھی کار ساز اداروں نے معیار میں بہتری یا اضافہ سہولیات کی فراہمی سے پرہیز کرتے ہوئے اضافی منافع اپنی جیب میں رکھنا زیادہ مناسب خیال کیا۔
پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں سے بات کریں تو وہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی درآمدات کو الزام دیتے ہیں جو میرے خیال سے مناسب نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ لوگ بیرون ملک سے گاڑیاں منگوا رہے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں مقامی گاڑیوں کی فروخت کہیں زیادہ ہے۔ جولائی تا اکتوبر 2015 میں 60,081 گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ انہی چار ماہ کے دوران 14,106 کی تعداد میں گاڑیاں درآمد کی گئیں۔ ان دونوں کے اعداد کے درمیان بہت بڑا اور واضح فرق ہے۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مقامی اداروں کی شکایت کو محض منافع خوری کا بہانہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف حکومت نے بھی شعبے کی ترقی کو دیکھتے ہوئے اسے نچوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ گذشتہ روز پیش کیے جانے والے ‘مِنی بجٹ’ میں کئی ایک نئے ٹیکس لاگو کیے گئے ہیں اور کچھ میں اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ ان میں 61 مصنوعات کی درآمد پر 5 تا 10 فیصد ٹیکس لگانے، 289 اشیاء پر لاگو ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافے اور دیگر روز مرہ استعمال کی چیزوں پر 1 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کیا جانا شامل ہے۔ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اضافی ٹیکسز سے حاصل ہونے والی رقم رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ہونے والے 39.8 ارب روپے کا خسارہ پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
گاڑیوں کی درآمدات پر عائد کیے جانے والے ٹیکس کا اطلاق نئی اور پرانی دونوں گاڑیوں پر ہوگا۔ یاد رہے کہ مالی سال 2015-16 کے پہلے چار ماہ میں 800 سے 1299 سی سی انجن کی حامل 3,968 گاڑیاں درآمد کی گئیں۔دیگر مختلف انجن کے مقابلے میں چونکہ سب سے زیادہ گاڑیاں اسی انجن کے ساتھ درآمد کی جاتی ہیں اسی لیے وفاقی حکومت نے اس پر 10 فیصد ٹیکس لاگو کیا ہے۔ 800 سے 1000 سی سی گاڑیوں پر پہلے سے عائد درآمدی ڈیوٹی (فی کس 4800 تا 6000 ڈالر ) بھی برقرار رہے گی۔ نئی ڈیوٹی کا اطلاق 1000 سے 1299 سی سی گاڑیوں پر ہوگا۔ علاوہ ازیں مزید طاقتور انجن کی حامل گاڑیوں پر لاگو ڈیوٹی پر بھی 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس کی مزید تفصیل درج ذیل ہے:
1300 تا 1500 سی سی – 18500 امریکی ڈالر
1501-1600 سی سی – 22500 امریکی ڈالر
1601-1800 سی سی – 27900 امریکی ڈالر
اور اگر آپ کی گاڑی ‘پرتعیش’ یعنی لگژری کے زمرے میں آتی ہے تو اضافہ 10 فیصد ڈیوٹی بھی ادا کرنا ہوگی۔
خلاصہ یہ کہ حکومت پاکستان اور کار ساز ادارے مل کر گاڑیاں خریدنے والوں کو نچوڑ رہے ہیں۔ ایک طرف سال 2012 سے اب تک حکومت آٹو پالیسی کی تیاری میں مشغول ہے اور مستقبل خوشخبری کی نوید سنا رہی ہے۔ تاہم مقامی کار ساز اداروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حکومت بے بس لگتی ہے اور مستقبل میں صارفین کوحقیقی تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آرہے۔مرے پر سو درے کے مصداق حکومتی ٹیکس کی وجہ سے اب گاڑی درآمدکرنے پر بھی خطیر رقم ادا کرنی ہوگی جس کا حاصل حصول کا کچھ اتا پتا نہیں۔ ایسے میں مجھے نہیں لگتا کہ نئے کار ساز اداروں کی پاکستان آمد سے صارفین کو کوئی فائدہ پہنچ سکے گا بالخصوص محدود بجٹ والے افراد کے لیے تو گاڑی کا حصول اب پہلے سے بھی زیادہ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔