کُل پاکستان انجمنِ تاجران نے غیر قانونی ٹیکس کے خلاف ہڑتال کا اعلان کردیا

0 425

حکومت کی جانب سے گاڑیوں  پر لگائے جانے والے غیر قانونی اور بھاری ٹیکسز کے خلاف کُل پاکستان انجمنِ تاجران نے ہفتہ 13 جولائی 2019ء کو ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ 

انجمن نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں واضح لکھا ہے کہ پاکستان بھر میں تمام کاروباری ادارے مندرجہ بالا تاریخ پر بند رہیں گے۔ انجمنِ تاجران جیل روڈ، لاہور اور لاہور کار ڈیلرز فیڈریشن نے بھی  اِس ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ اس سلسلے میں جیل روڈ، لاہور پر کار ڈیلرز ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے تمام کار شورومز ہفتے کو بند رہیں گے۔ جب سے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، سال بھر میں کاروباری برادری بہت حد تک متاثر ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے گاڑیوں پر بارہا متعدد ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ حکومت نے گاڑیوں پر موجودہ ٹیکسز کی شرح میں بھی اضافہ کردیا ہے جس نے نہ صرف صارفین کو حیرت زدہ کیا بلکہ گاڑیوں سے تعلق رکھنے والی کاروباری برادری کو بھی تباہ کرکے رکھ دیا۔ 

کاروباری برادری ٹیکسز کو حکومت کی جانب سے بے رحمانہ قدم قرار دے رہی ہے جو پاکستان کی بڑھتی ہوئی آٹوموبائل انڈسٹری پر اثرات کو مدنظر رکھے بغیر لگائے گئے ہیں۔ حکومت نے درآمد شدہ گاڑیوں پر متعدد اضافی ڈیوٹیز بھی لگائی ہیں جس کے بعد امپورٹرز کے لیے گاڑیاں درآمد اور مناسب قیمت پر گاڑیاں مارکیٹ میں فروخت کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ امپورٹڈ کاڑیوں کی طلب بھی تیزی سے کم ہوئی ہے جس سے فروخت میں بہت کمی ہوگئی ہے اور یوں امپورٹرز کا کاروبار بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی وجہ سے کئی مالکان سینکڑوں شوروم پہلے ہی بند کر چکے ہیں۔ کار ڈیلرز کے مطابق یہ کاروبار اب کسی طرح منافع بخش نہیں رہا۔ مزید برآں، کمیونٹی شورومز پر سالانہ پروفیشنل ٹیکس  میں اضافے کے خلاف بھی احتجاج کر رہی ہے۔ پہلے کار شورومز سے سالانہ 10،000 روپے لیے جاتے تھے جسے اب دوگنا کرکے 20،000 روپے کردیا گیا ہے۔ انجمنِ تاجران نے 4 جولائی کو ہڑتال اور 10 جولائی کو پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی لیکن حکومت نے اس ضمن میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ 

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہر لحاظ سے ملکی آٹوموبائل  انڈسٹری کے حوالے سے نسبتاً بے رحمانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ گزشتہ ایک سال میں گاڑیوں پر ٹیکسیشن اور ڈیوٹیز کے حوالے سے  مستقل پالیسیوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پہلے حکومت نے نان-فائلرز کی جانب گاڑیوں کی خریداری پر انجن گنجائش کے حساب سے حد مقرر کرنے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ ایک اور اہم موضوع فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کا ہے کہ جو پہلے 1700cc اور اس سے زیادہ کی گاڑیوں پر کل مالیت کے 10 فیصد کے طور پر عائد تھی۔ کچھ وقت کے بعد حکومت نے FED کے نفاذ کے حوالے سے انجن گنجائش کے بجائے تین کیٹیگریز کا اعلان کردیا۔ بعد ازاں سالانہ ٹوکن ٹیکس کا معاملہ سامنے آیا کہ جسے بجٹ ‏2019-20ء‎ میں فی نشست سالانہ کے طور پر نافذ کیا گیا لیکن بعد میں اسے ٹائپنگ کی غلطی قرار دیا گیا۔ 

مقامی آٹوموبائل انڈسٹری کبھی ترقی نہیں کر سکتی جب ہر روز نئی پالیسی سامنے آئے گی۔ اس سے سرمایہ کاروں کے ذہنوں میں بھی شکوک پیدا ہوں گے اور وہ مقامی مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ پاکستان میں کئی نئے اداروں کی آمد کے ساتھ ایسی غیر مستقل پالیسیاں مقامی آٹو سیکٹر کو نقصان ہی پہنچائیں گی۔ کار ڈیلرز اور صارفین پہلے ہی بڑھتے ہوئے ٹیکسز سے پریشان ہیں۔ حکومت کو اس پورے منظرنامے کے لحاظ سے قدم اٹھانا چاہیے اور ایک مضبوط اور دوستانہ آٹوموبائل پالیسی کے ساتھ آنا چاہیے کہ جس میں صنعت خود کو ترقی کی راہ پر پائے۔ دیکھتے ہیں کار ڈیلرز فیڈریشن کی ایک اور ہڑتال سے کیا ہوتا ہے۔ 

اپنے خیالات پیش کیجیے اور مزید خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.