پاما نے حکومت پر سی کے ڈی اور ایس کے ڈی کی درآمد پر سالانہ کیش مارجن منسوخ کرنے کے حوالے سے زور دیا

0 157

چند دن پہلے پاکستان سٹیٹ بنک نے کئی اشیاء کی درآمد پر 100 فیصد کیش مارجن لگانے کا فیصلہ کیا خاص طور پر ان میں وہ اشیاء شامل تھیں جو کہ براہ راست آٹو انڈسٹری سے منسلک ہیں جن میں سی بی یو اور سی کے ڈی/ ایس کے ڈی بھی شامل ہیں، جس وجہ سے ہر کوئی اس فیصلے پر حیران ہے۔ بہر حال پاکستان کی ڈوبتی ہوئی آٹو انڈسٹری میں حالیہ دنوں میں کافی  ترقی میں دیکھنے میں آئی اور خاطرخواہ سرمایہ کاروں اور خریداروں نے اس انڈسٹری میں دلچسپی لی جس سے اس مقامی آٹو مارکیٹ کو اس کے بچاؤ کے لیے ضروری ترقی ملی۔

اس نئے اصول پر کار سازوں کا موقف:

کارسازوں کا اس نئے اصول پر موقف انتہائی سادہ ہے جیسا کہ ڈان نیوز میں رپورٹ ہوا، ان کا کہنا ہے کہ آٹو انڈسٹری ایک جمود کے مرحلے کے بعد ترقی کی امید کر رہی تھی مگر اس فیصلے سے اس ترقی کی امید پر کاری ضرب آئے گی۔ اگر آپ اس بات میں الجھے ہیں کہ اس فیصلہ سے مقامی آٹو مارکیٹ کس طرح سے متاثر ہوگی تو مجھے پہلے ’لوکلائیزیشن‘ کے لفظ سے بات کا آغاز کرنے دیں۔ میرے کچھ اچھی طرح باخبر رہنے والے قارئین یہ بات جانتے ہوں گے کہ بہت کم گاڑیاں مکمل طور پر پاکستان میں بنتی ہیں۔ پس جو آٹو پارٹس کمپلیٹ ناک ڈاؤن یونٹ یا سی کے ڈی کے تحت درآمد کیے جاتے ہیں وہ گاڑیاں بنانے کے لیے انتہائی اہم میٹیریل ہیں۔ اس بات کا یہ مظلب ہرگز نہیں ہے کہ آٹو سیکٹر کے اسٹیک ہولڈرز مکمل طور پر اس فیصلے سے برگشتہ ہیں۔ ان کے مطابق وہ اس فیصلے کی ضرور تائید کرتے اگر یہ کیش مارجن کا فیصلہ تیار مصنوعات کی درآمد پر ہوتا جس کو آٹو موبائل انڈسٹری میں کمپلیٹ بلٹ یونٹ یا سی بی یو کہا جاتا ہے۔ 100 فیصد کیش مارجن کے فیصلہ کا ایس کے ڈی اور سی کے ڈی کی درآمد پر نفاز سرمایہ کاروں کا اس انڈسٹری پر سے اعتماد ہلا کر رکھ دے گا اور ملک میں گاڑیوں کی پیداوار کی قیمت کافی حد تک بڑھ جائے گی۔ مزید یہ کہ ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اس سے مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑیوں اور درآمد کی گئی گاڑیوں کے آپسی مقابلے کوبھی نقصان پہنچے گا۔

آپ کو سی کے ڈی یونٹ پر اس کے اثرات کا مجموعی جائزہ دینے کے لیے میں پھر سے پاکستان بیورو آف سٹیٹیسٹیکس کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ ایس کے ڈٰی اور سی کے ڈی کی درآمد پر جولائی سے جنوری 2016 تا 2017 میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اور اسی مالی سال میں اس کی قیمت 280 ملین ڈالر سے بڑھا کر 360 ملین ڈالر کر دی گئی۔

گاڑیوں کی درآمد پر کوئی اثر نہیں!

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیرمین ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ سٹیٹ بنک کے 100 فیصد کیش مارجن کے فیصلہ کے اطلاق سے استعمال شدہ گاڑیوں کے درآمد کنندگان پر کوئی فرق نہیں آتا کیوں کہ وہ استعمال شدہ گاڑیوں کو صرف زاتی استعمال، رہائش کی ٹرانسفر یا گفٹ سکیم کے تحت درآمد کرتے ہیں جن میں سے زیادہ تر جاپان سے درآمد کی جاتی ہیں۔ اگر 660cc-1000cc تک کی مکمل درآمد کردہ گاڑیوں پر 90 فیصد شیئر تصور کریں تو اس مارکیٹ کی قیمتیں بلند ہونے میں کوئی حیرانی والی بات نہیں۔ اس حقیقت میں یہ بات مزید اضافہ کرتی ہے کہ استعمال شدہ گاڑیوں کا حجم پچھلے مالی سال کے اسی وقت کے دوران جولائی تا جون 2016 تا 2017 میں 32674 یونٹ سے بڑھ کر 36397 یونٹ تک پہنچ گیا۔

یہ ہمیں کس طرف لے کر جاتا ہے؟

اس موقع پر باآسانی یہ نتیجہ اخز کیا جاسکتا ہے کہ سٹیٹ بنک کی پالیسی اپنے مقصد کے بالکل خلاف عمل کر رہی ہیں جن میں بڑھتی ہوئی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کا ردعمل قابل زکر ہے۔ اس ریگولیٹری باڈی نے وزارت خزانہ سے درخواست کی ہے کہ آٹو موٹو وہیکلز میں ایس کے ڈی اور سی کے ڈی کے لیٹر آف کریڈٹ پر 100 فیصد کیش مارجن ختم کیا جائے۔ تو اب پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کو سٹیٹ بنک کے نوٹیفکیشن نمبر ERD/M&PRD/PR/01/2017-16 بتاریخ 24 فروری 2017 جس میں عام صارفین کی اشیاء بشمول موٹر وہیکلز(جن میں ایس کے ڈی اور سی کے ڈی شامل ہیں) پر 100 فیصد کیش مارجن پر کیا کہنا چاہیے؟

زرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان کے وزارت خزانہ کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا کہ متعلقہ پارٹیاں اس بات کا زکر کرنا ضروری سمجھتی ہیں کہ مقامی آٹو انڈسٹری نے پچھلے کئی سالوں کی تنزلی کے بعد ابھی ترقی کے پہلے قدم رکھنا شروع کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی بی یو اور سی کے ڈی کی درآمد پر 100 فیصد کیش مارجن سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد ہل جائے گا اور اگر یہی صورتحال رہی تو اس نئی پالیسی کی وجہ سے مقامی مسابقتی اسیمبلرز کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن اس نئی پالیسی کو پوری طرح سے مسترد نہیں کر رہی بلکہ ریگولیٹری باڈی کا یہ کہنا ہے کہ صرف ایس کے ڈی اور سی کے ڈی کی درآمد پر نرمی برتی جائے کیونکہ مقامی اسیمبلرز ملک میں ہی ایک پروڈکٹ تیار کرنے کے لیے ان حصوں پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔   

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.