پشاور میں قائم سیکوس یونیورسٹی کے پانچ ہونہار طالب علموں نے شمسی توانائی سے چلنے والی برقی گاڑی کا نمونہ تیار کیا ہے۔ اس گاڑی میں کسی قسم کا انجن استعمال نہیں کیا گیا ہے اور یہ صرف 2 سولر پینلز، 4 ڈرائے سیل بیٹریوں اور ایک DC موٹر کے ذریعے چلتی ہے۔ اس کے علاوہ گاڑی کو اینڈرائیڈ ایپ سے منسلک کرنے اور اسمارٹ فون کے ذریعے مختلف اہم امور انجام دینے کی بھی سہولت شامل ہے۔
سیکوس یونیورسٹی کے طالب علموں ابرار یوسف زئی، احمد یوشا، محمد غفران، اعزاز احمد اور احسان اللہ نے اس گاڑی کو 10 ماہ میں تیار کیا ہے۔ اس گاڑی میں 2 سولر پینل نصب کیے گئے ہیں جن میں سے ایک گاڑی کی چھت اور دوسراعقب میں موجود ہے۔ ان سولر پینلز کی مدد سے گاڑی میں موجود چار ڈرائے سیل بیٹریوں کو توانائی حاصل ہوتی ہیں۔ گاڑی کے پچھلے حصے میں نصب ان بیٹریوں کی مدد سے برقی موٹر کو پہیے گھمانے میں مدد ملتی ہے۔ اس برقی گاڑی کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ ایک بار مکمل چارجنگ کے بعد یہ 25 کلومٹر تک سفر کرسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: این ای ڈی یونیورسٹی کے طالب علموں کی تیار کردہ فارمولا ریسنگ کار کی نقاب کشائی
برقی گاڑی کا نمونہ تیار کرنے والی ٹیم کے اہم رکن ابرار یوسف زئی نے پاک ویلز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو دروازوں والی اس گاڑی کا مجموعی وزن 250 کلو گرام ہے اور اس میں بیک وقت پانچ افراد باآسانی سفر کرسکتے ہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس گاڑی کے بیرونی حصے کو اسٹیل سے تیار کیا گیا ہے جبکہ آگے موجود شیشہ اور دونوں دروازے پوٹوہار جیپ (Suzuki Potohar) سے لیے گئے ہیں۔
ابرار یوسف زئی نے بتایا کہ اس برقی گاڑی کو نہ صرف سورج کی روشنی بلکہ عام گھریلو بجلی کے پلگ سے بھی چارج کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں ماحولیاتی اور صوتی آلودگی کے علاوہ زمین کے درجہ حرارت میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہیں لہٰذا ہمیں متبادل توانائی کے استعمال پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی سے چلنے والی سوزوکی FX؛ پاکستان میں تیار شدہ دوسری برقی گاڑی!
گوگل کے موبائل آپریٹنگ سسٹم اینڈرائیڈ سے منسلک کرنے کی سہولت سے متعلق ابرار یوسف زئی نے بتایا کہ اینڈرائیڈ اسٹوڈیو کی مدد سے تیار کردہ اسمارٹ فون ایپ بلوٹوتھ کے ذریعے برقی سرکٹ سے منسلک ہو کر مختلف امور انجام دیتی ہے۔ ان میں گاڑی اسٹارٹ کرنے کی سہولت کے علاوہ سولر پینل کا رخ تبدیل کرنے اور کھڑکیوں کے شیشہ کھولنے اور بند کرنے جیسی بنیادی سہولیات بھی شامل ہیں۔
گو کہ اس گاڑی کا ڈیزائن زیادہ پُرکشش نہیں ہے اور یہ دور جدید کی برقی گاڑیوں کے عشر عشیر بھی نہیں کہی جاسکتی تاہم محدود وسائل کے باوجود ایسی گاڑی تیار کرنا کسی کارنامے سے کم نہیں ہے۔ یہی وہ قابلیت اور ذہانت ہے کہ جو پاکستان کے ہر شہر اور گاؤں میں موجود ہے تاہم صاحب اختیار افراد کی عدم توجہی کے باعث یا تو ایسے ہونہار نوجوانوں کی قابلیت ضائع ہورہی ہے یا پھر بیرون ممالک میں موجود کمپنیاں ان سے استفادہ حاصل کر رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں درکار وسائل فراہم کر کے نئی اور بہتر چیزیں تیار کرنے کی طرف راغب بھی کیا جائے۔