وی آئی پی کلچر کے خلاف مہم: ‘ڈیش کیم’ کو اپنا ہتھیار بنائیں!
ملک کے سب سے بڑے شہر، معاشی شہ رگ اور صوبائی دارلحکومت کراچی میں حکومت کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن طویل عرصے سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود قوانین کی دھجیاں اڑائے جانے کے مناظر اکثر و بیشر نظر آتے ہی رہتے ہیں۔ اور ان خلاف ورزیوں میں عام افراد نہیں بلکہ خاص الخاص یعنی وی آئی پی افراد کی اکثریت شامل رہتی ہے۔ کبھی کسی “بڑی گاڑی” والے نے موٹر سائیکل سوار کو کچل دیا تو کبھی کسی “بڑے صاحب کے گارڈز نے پیدل چلنے والوں کو گاڑی کے سامنے سے ہٹانے کے لیے عام لوگوں پر بندوق تان لی۔ سونے پہ سہاگہ صوبائی حکومت خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے اور یہ صرف اس وقت ہی جاگتی ہے جب ان کا کوئی “اپنا” قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ اس رویے سے عوام میں پھیلتی شدید مایوسی اب خاموشی کو توڑتی ہوئی ردعمل کی صورت اختیار کرنے لگی ہے۔
جب جب شہر قائد کا موازنہ دیگر صوبائی دارالحکومت سے موازنہ کیا گیا تب تب کراچی کا احساس محرومی بیدار ہوا۔ لاہور کے ترقیاتی منصوبے دیکھنے کے بعد کراچی پر نگاہ ڈالیں تو یہاں سڑکوں کی حالت زار چیخ چیخ کر ارباب اختیار کی بے توجہی کا رونا رو رہی ہیں۔ کہیں گٹر کا ڈھکنے غائب، کہیں سڑکیں گدلے پانی سے تربتر، کہیں بے ہنگم ٹریفک میں پھنسی گاڑیوں کا شور اور دھواں سبھی کچھ یہاں موجود ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے بننے والی گزرگاہیں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہیں صرف کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی اور بسوں، رکشوں کی ناقابل بیان حالت کے باعث حادثات تو بہت عام سی بات ہوچکی ہے۔ ان سب مسائل کے بعد شہر کراچی کی سڑکوں کو جب ‘وی آئی پی موومنٹ’ کے نام پر بند کیا جاتا ہے تو گویا رہی سہی کسر بھی نکل ہوجاتی ہے۔

ہم وی آئی پی کلچر کے خلاف جاری مہم کی برملا حمایت کرتے ہیں۔ یہ حکمتِ وقت کے لیے انتہائی شرم کی بات ہے کہ لوگوں کو اپنے ہی شہر میں محصور کر کے خود کو اعلی و عرفہ سمجھنے والے لوگ آزادانہ گھومتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک نہیں، دسیوں برادر ملکوں کی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں کے حکمران ذاتی کاموں کے لیے بغیر کسی پروٹوکول کے نکلتے ہیں۔ دبئی ہی کی مثال لے لیں کہ جہاں حاکمِ وقت اپنی گاڑی پر مخصوص نمبر پلیٹ (1 عدد والی) کے ساتھ بے خوف و خطر سڑکوں پر گھومتا رہتا ہے۔ جبکہ ہمارے حکمران اپنی ہی نا اہلیوں کی سزا عام عوام کو دیتے ہوئے آئے روز حفاظت کے نام پر سڑکیں بند کردیتے ہیں حتی کہ اسپتال میں داخلے تک روک دیتے ہیں۔ ایسے میں شہر کراچی کی عوام کا غصہ حق بجانے معلوم ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کے ڈیش بورڈ پر کیمرے کی تنصیب کیوں لازم ہونی چاہیے؟
زیادہ دن نہیں گزرے جب لیاری کی رہائشی 10 ماہ کی بسمہ سِوک اسپتال کے باہر جان کی بازی ہار گئی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ حکومت کے مہمان خصوصی جناب بلاول بھٹو زرداری اسپتال کے ایک شعبے کا افتتاح کرنے پہنچے تھے اور ان کی حفاظت کے لیے اسپتالوں میں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد کراچی کے شہری پھٹ پڑے اور چاروں طرف وی آئی پی کلچر کے خلاف مہم سے متعلق بات ہونے لگی۔
اس غم و غصے کی ایک مثال گزشتہ روز کراچی کے مشہور کاروباری علاقے صدر کے نزدیک نظر آئی۔ ٹویوٹا ہائی لکس ویگو میں بیٹھے بڑے صاحب نے جب ایک موٹر سائیکل سوار کو ٹکر ماری تو وہاں موجود عوام بپھر گئے۔ چند افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت موٹر سائیکل سوار کو طبی امداد کے لیے روانہ کیا اور شدید جذباتی عوام نے ویگو کو گھیرے میں لے لیا۔ محافظوں کی جانب سے دھمکی آمیز رویے اور جائے وقوعہ سے گاڑی فرار کروانے کی کوششوں نے لوگوں کو اور مشتعل کردیا جس کے بعد بننے والی گاڑی کی درگت ناقابل بیان ہے۔ اس واقعے کی ویڈیو ذیل میں موجود ہے:
Must watch Public irritating against VIP..!!
Posted by Shakeel Baig on Monday, 4 January 2016
روس میں جب اس طرح کے واقعات رونما ہوا کرتے تھے تو لوگوں نے کیمرے کی مدد سے انقلاب برپا کردیا۔ ان میں ڈیش بورڈ پر لگائے جانے والے کیمروں ‘ڈیش کیم’ نے اہم کردار ادا کیا۔ لوگ انہیں اپنی گاڑیوں میں نصب کرتے اور راہ چلتے کسی بھی غیر قانونی یا غیر ضروری حرکت کو ریکارڈ کر کے عدالت سے رجوع کرتے۔ اب چاہے اس ریکارڈنگ کی وجہ سے کوئی بڑا شخص ہی کیوں نہ پکڑا جائے، قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے میں ضرور مدد ملی۔ یہ رجحان مزید فروغ پایا اور اب دنیا بھر میں ڈیش کیم لگانے کا رواج عام ہے۔
ایک ایسے شہر میں جہاں زندگی کی رفتار بہت تیز اور حادثات کا موجب بننے والی شخصیات کے رفو چکر ہونے کے واقعات عام ہیں، ہمیں بھی ضرورت ہے کہ اپنی گاڑیوں میں ڈیش کیمز لگوائیں اور ہر ہر مجرم کو ثبوت کے ساتھ قانون کی گرفت میں لے کر آئیں۔ خود میں نے ایک بار رینجرز اہلکاروں کو وی آئی پی شخصیات کے لیے عوام کو ڈراتے دھمکاتے دیکھا ہے۔ جی ہاں، وہی عوام جن کے ٹیکسز سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔
اوپر موجود ویڈیو کیمرے کے مفید استعمال کی تازہ مثال ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح امیروں کی گاڑیاں غریبوں کو روندتی ہیں۔ لیکن ایک اور بڑا مسئلہ موٹر سائیکل سواروں کا بھی جو ایسے بائیک چلاتے ہیں جیسے سڑک پر ان کے علاوہ کوئی راہگیر موجود نہ ہو۔ ان کی بڑی اکثریت ٹریفک سگنل کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اس کے علاوہ ان میں غلط سمت میں سفر کا بھی رجحان تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ طویل شاہراہوں پر یو-ٹرن کے خاتمے اور ایندھن بچانے کی کوشش ہے۔
اور پھر ایسی شخصیات آتی ہیں جن کی گاڑی ہمہ وقت محافظوں سے لدی رہتی ہے اور وہ سامنے آنے والی ہر چیز کے ساتھ اپنی بندوق کے دستے سے انصاف کرتے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ اگر ہائی لکس ویگو کو عوام نہ روکتی اور اس کی ویڈیو نہ بنتی تو گاڑی میں سوار تمام افراد فوراً جائے وقوعہ سے فرار ہوجاتے اور پھر اس تمام واقعے کا الزام کسی غریب کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔

اس وقت مشہور آن لائن اسٹور علی ایکسپریس پر دستیاب ڈیش کیم کی کم از کم قیمت 4 سے 5 ہزار روپے ہے۔ یہ کیمرہ بہت معیاری ریکارڈنگ کر سکتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنی گاڑی میں یہ کیمرا استعمال کریں تو بہت سے حادثات میں اپنے ہی اوپر لگنے والے الزام سے بری ہوسکتے ہیں۔ نیز عوام الناس کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بننے والی وی آئی پی موومنٹ کے خلاف برسرپیکار افراد کی بھی مدد کرسکتے ہیں۔کراچی کی عوام نے تو شروعات کردی ہے، اب دیکھنا ہے کہ پڑھے لکھے بدمعاشوں کا ہاتھ کون روکتا ہے؟
باوجودیکہ پاکستان میں قائم عدالتیں ویڈیو کو ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کرتیں، لیکن پھر بھی آپ جرم کے مرتکب کسی اعلی شخصیت کا اصلی چہرہ عوام کے سامنے دکھا کر اسے شرمسار کرسکتے ہیں۔
وی آئی پی کلچر ہمارے معاشرے میں انتہائی برے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ امیروں کے دکھاوے اور شان و شوکت کے اظہار میں ایک سے بڑھ کر ایک گاڑی، محافظوں کے دستے کی وجہ سے عام عوام کو شدید پریشانی اور بہت سوں کو شدید غصے میں مبتلا کردیا ہے۔ دبئی کے حکمرانوں کی مثال شاید آپ کو اچھی نہ لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے گھر میں رہنے کا اصل مزہ تو آزادی اور سکون کے ساتھ ہے۔