مالی سال 2015-16: گاڑیاں کی درآمدات میں ریکارڈ اضافہ!
گزشتہ مالی سال کے دوران مقامی تیار شدہ گاڑیوں کی فروخت کافی حوصلہ افزا رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2015-16 میں فروخت ہونے والی سیڈان اور ہیچ بیک گاڑیوں کی تعداد پچھلے مالی سال سے 17 فیصد زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شماریات مقامی اداروں کے خوش آئند ہیں تاہم بیرون ممالک سے گاڑیوں کی درآمدات میں کئی گنا تیزی ان اداروں کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت: مالی سال 2015-16 کا جائزہ
پاکستان میں گاڑیوں کی درآمد سے متعلق تازہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2015-16 کے دوران 53,600 گاڑیاں درآمد کی گئیں جبکہ مالی سال 2014-15 کے دوران یہ تعداد صرف 32,1000 رہی تھی۔ یوں مقامی سطح پر تیار و فروخت ہونے والی گاڑیوں میں جہاں 17 فیصد اضافے ہوا وہیں بیرون ممالک سے استعمال شدہ گاڑیوں کی تعداد میں 67 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سے ایک اور دلچسپ بات پتہ چلتی ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران تقریباً 75 ارب روپے کی گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایسوسریز مینوفیکچررز (پاپام) کے سینئر نائب چیئرمین مشہور علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے یہی بہترین وقت ہے۔ انہوں نے مقامی سطح پر دستیاب مواقع کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ 20 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی 55 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے۔ مشہود علی خان نے کہا کہ جتنی رقم سے گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں اتنی مالیت سے ہونڈا ایٹلس (Honda) جتنے دو کارخانے لگائے جاسکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گاڑیوں کی درآمدات میں اضافے سے پاکستان میں کاروباری مواقع پیدا ہوسکیں گے نہ ہی نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کا ہدف پورا ہوسکے گا۔
دوسری طرف گاڑیوں کی درآمدات سے وابستہ کاروباری افراد یہ شکایت کرتے ہیں کہ پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے اپنا کام بہتر طریقے سے انجام نہیں دے رہے۔ درآمد کنندگان کا موقف ہے کہ یہاں محدود گاڑیاں انتہائی مہنگی قیمت پر دستیاب ہیں اور ان کی تیاری میں بھی غیر معیاری ساز و سامان استعمال کیا جاتا ہے۔
گو کہ بیرون ممالک سے گاڑیاں منگوانے والوں کی بات بالکل ٹھیک ہے تاہم یہ بھی درست ہے کہ بیرون ممالک پیسے کی منتقلی سے ملکی محصولات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ استعمال شدہ گاڑیوں کی فروخت سے عوام الناس کو جزوقتی سہولت حاصل ہوتی ہے تاہم یہ مستقل میں ملک کی معاشی صورتحال خراب ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔ اب جبکہ پاکستان میں نئی آٹو پالیسی منظور کی جاچکی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے بالکل اسی انداز سے نافذ کیا جائے کہ جن مقاصد کے تحت اسے تیار کیا گیا تھا۔