گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں – کیا حکومت نے آٹو انڈسٹری تباہ کردی ہے؟

0 575

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے پچھلے سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات 2018ء میں کامیابی حاصل کی اور 18 اگست 2018ء کو اقتدار سنبھالا تھا۔ اب سال بھر ہو چکا ہے تو ہم نے یہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا کہ پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالے وقت آٹو انڈسٹری کس مقام پر کھڑی تھی اور آج یہ کہاں ہے؟

گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کا کسے معلوم نہیں، جو اِس وقت قابو سے باہر دکھائی دیتی ہیں۔ جب ہم قیمت میں اضافے کی بات کرتے ہیں تو پہلی چیز جو ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مسلسل گھٹتی ہوئی قدر ہے۔ لیکن دراصل یہ غیر مستقل پالیسیوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جس نے آٹو سیکٹر کی مجموعی صورت کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدر کے علاوہ حکومت نے بھی گاڑیوں پر اضافی ڈیوٹیز اور ٹیکسز لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان سب کی شروعات حکومت کی جانب سے تمام نان-فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے وژن کے ساتھ ہوئی کہ جس میں ان سے گاڑیاں خریدنے پر اضافی پنالٹی چارج ہو رہی ہے۔ اس پنالٹی نے ہزاروں افراد کو مجبور کیا کہ وہ اپنے انکم ٹیکس ریٹرنز فائل کرنا شروع کریں۔ البتہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) جیسی ڈیوٹیز اور ٹیکسز متعارف کروانے سے معاملات ہاتھوں سے نکلنا شروع ہوگئے۔ حکومت نے پہلا قدم اٹھاتے ہوئے 1700cc اور اس سے زیادہ کے انجن رکھنے والی مقامی طور پر اسمبل ہونے والی تمام گاڑیوں پر 10 فیصد FED لگا دی۔ بعد ازاں اسے بجٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ پالیسیوں میں عدم تسلسل بدستور موجود رہا اور حکومت نے مالی بجٹ ‏2019-20ء میں تمام کیٹیگریز پر FED لگا دی جس کا اطلاق یکم جولائی 2019ء سے ہوا۔ مندرجہ ذیل کیٹیگریز کے حساب سے FED کی شرح کچھ یوں ہے: 

آٹوموبائل ڈیولپمنٹ پالیسی (ADP) ‏2016-21ء‎ متعارف کروائے جانے سے اب تک کئی غیر ملکی ادارے مقامی سیکٹر میں اپنی دلچسپی ظاہر کر چکے تھے۔ ان میں سے کئی کو مقامی مارکیٹ میں اپنی گاڑیاں بنانے کے لیے گرین فیلڈ اسٹیٹس دیے گئے کہ وہ مقامی سرمایہ کار کمپنیوں کے تعاون سے اپنے پلانٹس لگائیں۔ ADP میں دی گئی رعایتوں نے مقامی سیکٹر میں سب کے لیے یکساں میدان ترتیب دیا اور بڑے اداروں نے طویل المیعاد منصوبوں کے ساتھ اپنے پیداواری پلانٹس بنانا شروع کردیے۔ لیکن پالیسیوں میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں نے ملک میں ان کی بقاء میں رکاوٹیں پیدا کردی ہیں۔ نئے اداروں سے مقابلے کی فضاء بڑھنے کی توقع تھی اور یوں گاڑیوں کا معیار بہتر ہوتا لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ اب تو موجودہ آٹو مینوفیکچرر کو ہی پیداوار کی زیادہ لاگت اور گاڑیوں کی کم فروخت کی وجہ سے گھٹتے ہوئے منافع اور بڑھتی ہوئی مشکلات کا سامنا ہے۔ صارفین کی قوتِ خرید اِس حد تک گر چکی ہے کہ اب پرانی گاڑی کو رکھنا بھی کوئی مذاق نہیں۔ ٹویوٹا انڈس اور ہونڈا اٹلس پہلے ہی اپنی پیداوار کو جزوی طور پر روکنے کے اعلانات کر چکے ہیں کیونکہ مارکیٹ میں کم فروخت کی وجہ سے ان کے پاس گاڑیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ 

امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گھٹتی ہوئی قدر بھی پچھلے سال بہت نمایاں رہی، جس نے آٹو میکرز کو اپنی پروڈکٹس کی قیمتیں بارہا بڑھانے پر مجبور کیا۔ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو ایک ڈالر 127.75 پاکستانی روپے کا تھا۔ گزشتہ 12 ماہ میں یہ متعدد بار اتار چڑھاؤ کے بعد 25.56 فیصد اضافے کے ساتھ 6 اگست 2019ء کو 160.41 روپے پر کھڑا ہے۔ 

ان حالات میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں اضافہ سمجھ میں آتا ہے لیکن اسے ایک مخصوص شرح تک ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ ایک گاڑی میں مخصوص حصہ ہوتا ہے جو مقامی سطح پر بنایا جاتا ہے جبکہ کچھ حصہ درآمد شدہ مواد سے بنتا ہے۔ لوکل اور امپورٹڈ حصے کا یہ تناسب ایسا ہے جس کے بارے میں صارف کو کچھ نہیں پتہ۔ نہ ہی حکومت اور نہ ہی آٹو مینوفیکچررز اس بارے میں بات کرتے ہیں اس لیے گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ بدستور ایک راز ہے۔ امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرح کے اثرات صرف درآمد کیے جانے والے حصے پر پڑنے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے کمپنیوں نے پوری گاڑی کی قیمت کا بوجھ ہی صارفین پر ڈال دیا۔ اب تک ہم جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے اب تک امریکی ڈالر کی قیمت 25.56 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مقامی مینوفیکچررز کی جانب سے اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قیمتیں کس شرح سے بڑھائی گئی ہیں۔ 

واضح رہے کہ ذیل میں گاڑیوں کی وہ پرانی قیمتیں درج ہیں جو گزشتہ سال اگست میں حکومت کے اقتدار میں آنے پر تھیں جبکہ نئی قیمتیں 7 اگست 2019ء کی ہیں۔ اس تحریر میں جن گاڑیوں کی قیمتوں کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سب ایکس-فیکٹری قیمتیں ہیں۔ شروعات کرتے ہیں ملک میں سب سے بڑے جاپانی آٹو ادارے پاک سوزوکی سے جو گاڑیوں کی مختلف لائن اپ رکھتا ہے، خاص طور پر ابتدائی سطح کی گاڑیوں میں۔ یہ سالوں سے پاکستان میں سب سے بڑا مارکیٹ شیئر رکھتا ہے۔ 3 دہائیوں تک ریکارڈ پیداوار کے بعد بالآخر کمپنی نے سال کی پہلی سہ ماہی میں مہران کا خاتمہ کیا۔ اس لیے مہران کے ویرینٹس کی قیمتوں میں اضافے کی شرح بالترتیب 9.10 اور 9.88 فیصد رہی۔ اس وجہ سے اسے مینوفیکچرر کی جانب سے کُل اوسط اضافے کی فہرست سے نکالا جاتا ہے۔ مزید آگے بڑھیں تو سوزوکی APV 1.5L کی قیمت میں اس عرصے میں سب سے زیادہ 43.09 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد ویگن آر VXR ہے جو 34.61 فیصد بڑھی۔ کلٹس VXR ویرینٹ کی قیمت میں 30.22 فیصد اضافہ ہوا کہ اس کے دیگر دو ویرینٹس میں سب سے زیادہ ہے۔ وِٹارا GLX 1.6 کی قیمت پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالتے وقت کے مقابلے میں اب 31.66 فیصد زیادہ ہے۔ پاک سوزوکی کی گاڑیوں میں مجموعی اوسط اضافہ 29.15 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس دوران روپیہ 25.56 فیصد گرا۔ ادارے کی گاڑیوں کی نئی اور پرانی قیمتوں کی مکمل فہرست یہ ہے: 

پہلی مقامی طور پر اسمبل کی جانے والی 660cc کی جس گاڑی کا شدت سے انتظار تھا اسے پاک سوزوکی نے جون 2019ء میں لانچ کیا، یعنی چند مہینے پہلے ہی۔ اس لیے ہم نے اس گاڑی کو موجودہ ماڈلز سے الگ کردیا ہے۔ صرف دو مہینے میں اس کے تمام ویرینٹس کی قیمتیں مینوفیکچرر کی جانب سے ایک بار بڑھائی جا چکی ہیں۔ آلٹو VX پہلے سے 13.61 فیصد مہنگی ہو چکی ہے جبکہ VXR اور VXL AGS ویریئٹس کی قیمتوں میں بالترتیب 12.44 فیصد اور 10.65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے روپے کی گھٹتی ہوئی شرح کے حساب سے دیکھیں تو پاک سوزوکی کی جانب سے قیمتوں میں اس اضافے کا کوئی جواز نہیں۔ آلٹو کی تعارفی قیمت تو محض ایک مارکیٹنگ ٹول تھی، جسے ادارے نے استعمال کیا اور جیسے ہی اس گاڑی کی بکنگ کا آغاز ہوا، قیمت میں اضافے کا اعلان کردیا گیا۔ ورنہ اتنے مختصر عرصے میں کرنسی کی قدر میں کمی پر 13 فیصد اضافے کا جواز کوئی نہیں۔ 

ہائی-اینڈ گاڑیوں کی طرف بڑھیں تو ہونڈا اٹلس اس شعبے میں بڑے ناموں میں سے ایک ہے۔ آٹو میکر 1300cc سے زیادہ کے انجن رکھنے والی گاڑیاں بناتا ہے، جن میں سے کسی کی قیمت بھی اب 20 لاکھ یا اس سے کم نہیں ہے۔ صرف 12 مہینے پہلے ہونڈا سٹی کے 6 میں سے 5 ویرینٹس 20 لاکھ سے کم قیمت میں آتے تھے لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کمپنی نے گرتی ہوئی کرنسی کا بوجھ صارفین پر بہت بُری طرح ڈالا ہے کیونکہ ہم نے اس کی گاڑیوں کی قیمتوں میں اوسطاً 31.85 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے جو پاک سوزوکی سے بھی زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ جیسے جیسے ہم بنیادی سے ٹاپ ویرینٹ کی طرف جاتے ہیں ہونڈا کی قیمتوں میں اضافے کی شرح گھٹتی جاتی ہے۔ سٹی 1.3 i-VTEC کی قیمت سٹی ایسپائر 1.5 A/T میں 29.82 فیصد اضافے کے مقابلے میں 33.54 فیصد بڑھی ہے۔ اسی طرح سوِک کے دو 1.8L ویرینٹس کی قیمتیں بالترتیب 34.62 اور 36.37 فیصد بڑھی ہیں۔ سوِک 1.5L RS ٹربو کا اس میں ذگر نہیں ہے کیونکہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو یہ ہونڈا کی پیداوار کا حصہ ہی نہیں تھی، ادارے نے بعد میں یہ گاڑی متعارف کروائی۔ BR-V کے ٹاپ ویرینٹ کی قیمت میں 29.99 فیصد اضافہ ہوا جو اس کے ماڈلز میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ 

پاکستان میں ہائی اینڈ گاڑیوں میں بڑا مارکیٹ شیئر رکھنے والا ایک اور ادارہ ٹویوٹا انڈس ہے جس کی مشہور سیڈان کرولا ہے۔ کرولا کے اس وقت 9 ویرینٹس پاکستان میں بنائے جا رہے ہیں۔ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد سے ان سب کی قیمتیں 27.91 فیصد سے 32.64 فیصد تک بڑھی ہیں۔ دوسری جانب ہائی لکس سنگل کیب کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ 30.32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ریوو کے تین ٹرِمز بھی G 2.8 A/T ویرینٹ کے لیے زیادہ سے زیادہ 23.17 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ فورچیونر 2.8 سِگما 4 البتہ 34.11 فیصد اضافے کی شرح کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ ٹویوٹا انڈس کی گاڑیں میں کل اوسط اضافہ 29.09 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے جو “بگ تھری” کے دیگر اراکین کے مقابلے میں تھوڑا سا کم ہے۔ 

الحاج فا پاکستان کے آٹو سیکٹر میں اب نیا ادارہ نہیں رہا کیونکہ اب یہ تین ماڈلز کے 7 ویرینٹس مارکیٹ میں پیش کرتا ہے۔ کمپنی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی فا V2 میں اس عرصے میں سب سے زیادہ 24.50 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ فا کیریئر ڈیک لیس، فلیٹ بیڈ اور اسٹینڈرڈ کے تین ویرینٹس میں بنائی جاتی ہے جو بالترتیب 17.07 فیصد، 16.88 فیصد اور 16.68 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ X-PV کے ڈوئل A/C ویرینٹ کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ 14.64 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ الحاج فا کی گاڑیوں میں کُل اوسط اضافہ 16.08 فیصد دیکھا گیا جو صنعت کے بڑے اداروں کے مقابلے میں کافی کم ہے کہ جن کا اوپر پہلے ہی ذکر ہو چکا ہے۔ 

موٹرسائیکلیں بنانے والا ادارہ یونائیٹڈ پچھلے سال گاڑیوں کی کیٹیگری میں داخل ہوا جس نے سوزوکی مہران کے مقابلے میں مقامی طور پر اسمبل ہونے والی 800cc یونائیٹڈ براوو پیش کی کہ جس کا بہت شدت سے انتظار کیا گیا۔ اسے ستمبر 2018ء میں 8,50,000 روپے کی قیمت کے ساتھ متعارف کروایا گیا۔ اب اس کی قیمت 8.82 فیصد اضافے کے ساتھ 9,25,000 روپے پر کھڑی ہے۔ 

صارفین اس عرصے میں موٹر سائیکلوں کی جانب منتقلی پر مجبور ہوئے۔ بدقسمتی سے ملک میں موجودہ اقتصادی سست روی کی وجہ سے موٹر سائیکلیں بھی زد پر ہیں۔ البتہ موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں اضافے کی شرح کاروں کے مقابلے میں ذرا کم رہی۔ 

پاک سوزوکی اپنے حریف اٹلس ہونڈا کے ساتھ مقابلے کے لیے ملک میں متعدد موٹر سائیکلیں بناتا ہے۔ سوزوکی GD-110S کی قیمت میں اس عرصے میں 14.48 فیصد اضافہ ہوا۔ سوزوکی کی ہائی اینڈ 150cc موٹر سائیکلیں بھی پچھلے 12 مہینوں میں مہنگی ہوئیں۔ GS-150 اور GS-150 E کی قیمتیں بھی بالترتیب 16.66 فیصد اور 12.35 فیصد بڑھیں جبکہ GR-150 کی قیمت پہلے کے مقابلے میں 13.10 فیصد زیادہ ہے۔ قیمتوں میں اوسط اضافہ 14.14 فیصد دیکھا گیا۔

اٹلس ہونڈا ملک کے بڑے موٹر سائیکل بنانے والے برانڈز میں سے ایک ہے جس کی موٹر سائیکلیں ہر کیٹیگری میں ہیں۔ اٹلس ہونڈا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی CD-70 کی قیمت اب 12.80 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح CG-125 صارفین کی پسندیدہ ترین موٹر سائیکلوں میں سے ایک ہے، جو اس عرصے میں 11.36 فیصد مہنگی ہوئی۔ کل اوسط اضافہ 13.45 فیصد دیکھا گیا جو سوزوکی کے مقابلے میں تو کم ہے لیکن یاماہا سے زیادہ ہے۔ 

یاماہا کا مقبول ماڈل 125cc تین ویرینٹس میں آتا ہے یعنی YB-125Z، YBR-125 اور YBR-125G۔ یہ سب اس حکومت کے 12مہینوں میں 10.70 فیصد مہنگے ہوئے۔ 

کہانی کا اختتام یہیں نہیں ہوتا، بلکہ جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تھی تو تب کے مقابلے میں آج کی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی دیکھ لیں۔ صرف گاڑیوں کی قیمتیں ہی نہیں ہیں کہ جنہوں نے صنعت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اب تو گاڑیوں کو سڑک پر چلانا بھی بہت مہنگا سودا بن گیا ہے۔ موجودہ اقتصادی سست روی اور روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کے اثرات صارفین پر بُری طرح منتقل ہوئے ہیں کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ پٹرول کی قیمت اُس وقت 95.24 روپے فی لیٹر تھی جو 23.71 فیصد اضافے کے ساتھ اب 117.83 روپے فی لیٹر پر کھڑی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 17.29 فیصد اضافے کے ساتھ 112.94 روپے سے 132.47 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ لائٹ اسپیڈ ڈیزل کی قیمت سنچری کے قریب ہیں جو 29.38 فیصد اضافے کے ساتھ 97.52 روپے فی لیٹر پر کھڑا ہے جبکہ مٹی کا تیل 23.67 فیصد اضافے کے ساتھ 103.84 روپے فی لیٹر ہے۔ 

مندرجہ ذیل ٹیبل ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قدر کے مقابلے میں مختلف برانڈز کی گاڑیوں کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ قیمتیں بڑھا کر ہونڈا اٹلس آخری نمبر پر رہا: 

اسی طرح مختلف برانڈز کی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں کیے گئے اضافہ کا چارٹ بھی درج ذیل ہے: 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ متعدد اضافی ٹیکس اور ڈیوٹیز بھی ہیں جیسا کہ FED۔ پھر بھی گاڑیوں کے معاملے میں صارفین کی قوتِ خرید بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کو مقامی آٹو سیکٹر کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک مستقل منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ نئے ٹیکس اور ڈیوٹیز لگانے کے بجائے حکومت کو مختلف اداروں کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کو ریگولیٹ کرنا چاہیے۔ تمام آٹو مینوفیکچررز کے لیے یکساں میدان ہونا چاہیے تاکہ مقابلے کی فضاء پروان چڑھے اور آٹوموبائل انڈسٹری کے بہتر مستقبل کی جانب قدم بڑھائے جا سکیں۔ ایک اور سوال جس کا جواب ابھی باقی ہے کہ اگر مستقبل میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے تو کیا آٹو مینوفیکچررز قیمتیں کم کریں گے ؟ اگر آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو نیچے تبصروں کے حصے میں بتائیے۔ پاکستان کے آٹو موبائل سیکٹر کے حوالے سے اعداد و شمار رکھنے والی ایسی ہی خبروں کے لیے پاک ویلز پر آتے رہیں۔ 

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.