ٹویوٹا کرولا انڈس (E100) – مشہور زمانہ کرولا
ٹویوٹا کا شمار گاڑیاں بنانے والے مقبول ترین اداروں میں کیا جاتا ہے۔ جاپان سے تعلق رکھنے والے ادارے کی فہرست میں رائل سلون، لینڈ کروزر، کرولا اور دیگر بے شمار معروف اور پرتعیش گاڑیاں شامل ہیں۔
ٹویوٹا کرولا کی بات کریں تو اس نام کی پہلی سیڈان 1966ء میں متعارف کروائی گئی تھی جس میں 1100cc انجن شامل تھا۔ اگر آپ کرولا کے جدید ترین ماڈل اور تقریباً پچاس سال قبل پیش کیے جانے والے پہلے ماڈل کا موازنہ کریں تو آپ کو نہ صرف ظاہری انداز بلکہ اندرونی حصے میں بھی انقلابی تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس دور میں کرولا کا اول اول ماڈل نہ مل سکے لیکن یقین جانیے کہ وہ آج کے مقابلے میں بالکل مختلف تھا۔ 1992ء میں ٹویوٹا نے کرولا کی ساتویں جنریشن متعارف کروائی۔ اسے E100 کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا جبکہ پاکستان میں یہ انڈس کرولا کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس منفرد نام کی کہانی یہ ہے کہ اسے پہلی مرتبہ پاکستان ہی میں انڈس موٹر کمپنی نے تیار کیا تھا۔ گو کہ یہ کرولا جاپان میں زیادہ شہرت نہ سمیٹ سکی تاہم ایشیائی ممالک بشمول پاکستان، انڈونیشیا اور فلپائن میں اسے زبردست کامیابی ملی۔ انڈونیشیا میں تو اسے آج بھی “عظیم کرولا” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس گاڑی کو کسی بھی زاویے سے دیکھ لیجیے، یہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گی۔
مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے اکثر قارئین اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انڈس کرولا کی باڈی (body) اپنے وقت میں دستیاب دیگر گاڑیوں مثلاً سوزوکی مرگلہ، ہونڈا سٹی وغیرہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھی۔ سینٹر آف گریوٹی کم ہونے کی وجہ سے اس گاڑی میں سفر انتہائی ہموار اور آرامدے تھا۔ نیز یہی خصوصیت سڑک پر گاڑی کی اچھی گرفت اور سنبھالنے کے لیے بھی مثبت ثابت ہوئی۔ ٹویوٹا کرولا E100، جسے عام طور پر انڈس کرولا بھی کہا جاتا ہے، کے کئی ماڈل پیش کیے گئے تاہم سب سے زیادہ مقبولیت 2.0D یعنی 2000cc ڈیزل انجن اور 1.6 GLI یعنی 1600cc پیٹرول انجن والے ماڈل کو حاصل ہوئی۔
کرولا 2.0D کی زبردست شہرت کی بنیادی وجہ اس کا low-end ٹارک رہا۔ اس کے علاوہ ڈیزل کی قیمت کم ہونے کے باعث اس پر ایندھن کی مد میں آنے والے خرچہ بھی ہوتا تھا۔ صرف کرولا ہی نہیں بلکہ اس زمانے میں دیگر گاڑیوں کے ڈیزل انجن والے ماڈل بھی پیٹرول کے مقابلے میں ڈیزل کی کم قیمت کی وجہ سے کافی مشہور ہوئے۔ لیکن اب صورتحال اس کے بالکل برعکس ہوچکی ہے۔
گاڑی کا اندرونی حصہ آرامدہ اور گنجائش کا حامل تھا۔ کسی بھی دوسری گاڑی کے مقابلے میں پانچ افراد کرولا میں زیادہ آسانی سے بیٹھ سکتے تھے تاہم گاڑی کی اونچائی کم ہونا بڑی پریشانی کا باعث رہا۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ گاڑی کی کم اونچائی نے سڑک پر گرفت بہتر بنانے میں کردار ادا کیا لیکن یاد رہے کہ ہم پاکستان میں رہتے ہیں جہاں ہر تھوڑے فاصلے پر ‘اسپیڈ بریکر’ موجود ہوتے ہیں جنہیں ‘کار بریکر’ بھی کہا جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ان کی موجودگی میں بہت نیچی گاڑیوں کو مشکل پیش آتی ہے اور خاص کر پانچ افراد ایک ساتھ سفر کریں تو اکثر اوقات اسپیڈ بریکر گاڑی کے نچلے حصے سے رگڑ کھا جاتا ہے۔
اس مسئلے سے چھٹکارا پانے کے لیے لوگوں نے مختلف طریقے استعمال کیے۔ کسی نے بڑے پہیے استعمال کرنے کو بہتر جانا تو کسی نے بڑے اور سخت سسپنشن کی مدد لی یا پھر “گٹکوں” (جنہیں انگریزی میں spacers کہا جاتا ہے) سے گاڑی کی اونچائی میں اضافہ کیا۔ اس طرح کی غیر معمولی تبدیلیوں سے گاڑی کی کارکردگی پر تھوڑا بہت تو اثر پڑتا ہی ہے تاہم اسپیڈ بریکر جیسی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ تو پاپڑ بیلنے ہی پڑتے ہیں۔
خیر، انڈس موٹرز نے بھی ان مسائل کو دیکھا اور اس سے سبق سیکھتے ہوئے 2003ء میں کرولا کا نیا ماڈل متعارف کروایا گیا جس کی اونچائی پچھلے ماڈل سے زیادہ تھی۔ انڈس موٹرز کی غیر معمولی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں جاپان سے پاکستان منگوانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ میرے بڑے بھائی کے پاس آج بھی جاپانی انڈس کرولا موجود ہے اور وہ تقریباً 8 سال سے استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوران انہیں کبھی بھی گاڑی میں کسی بڑے مسئلہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جاپان سے پاکستان درآمد کی جانے والی اکثر و بیشتر انڈس کرولا 1600cc آٹومیٹک ہی تھیں۔
اب جبکہ اس گاڑی کی پیشکش کو بیس سال گزر چکے ہیں، گنجان آباد شہروں میں انڈس کولا بہت کم دیکھی جاتی ہے۔ مگر اندرون سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کئی شہروں میں آج بھی بہت بڑی تعداد کرولا E100 استعمال کر رہی ہے۔
انڈس کرولا کو سرکاری افسران کے زیر استعمال بھی دیکھا گیا ہے جس سے اس کی قابل بھروسہ قابلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں لوگوں نے اسے مختلف تجربات اور تبدیلیوں سے بھی گزارا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ کراچی میں ایک انڈس کرولا خاصی مقبول ہوئی تھی جسے اس کے مالک نے بہت احتیاط سے رکھا تھا۔ مجھے مالک کا نام تو یاد نہیں البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ ان کی انڈس کرولا سنہری رنگ کی تھی جسے دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا تھا۔
آپ اسے ذاتی پسند بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن میری رائے میں انڈس کرولا یا پھر ٹویوٹا کرولا 1992-2002 (E100) کہہ لیں، پاکستان میں دستیاب سب سے بہترین گاڑیوں میں سے ایک تھی۔
تصاویر بشکریہ: پاک ویلز کے رکن – کیوی رولا