موٹر بائیک پاکستان میں سب سے زیادہ نظر آنے والی ذاتی ٹرنسپورٹ ہے۔زیادہ تر لوگوں کو اس کا آسان، فائدہ مند، کم خرچ سواری ہونا اِس کی طرف مائل کرتا ہے۔مگر بد قسمتی یہ ہے کہ سیمی آٹو میٹک اور آٹو میٹک گئیر باکسز کی طرف رجہان پاکستان میں بہت مشکل سے ملتا ہے، جو کہ پاکستان میں ایسی بہت کم بائیکس ہونے سے ثابت ہوتا ہے۔کچھ ماہ قبل سوپر پاور نے پاکستان میں کلچز اور آٹومیٹک سکوٹرز متعارف کروانے میں پیش قدمی کی،کمپنی نے تقاریب اور مختلف ذرائع کی مددسے ملازمت پیشہ خواتین کو موٹر سائیکل سکھانے میں بے پناہ محنت کی۔
لیکن اس سے ہمیں کیا بتایا جا رہا ہے؟ محترم صارف، آہستہ سے مگر یقینی طور پر ہماری سوسائیٹی کے مرد حضرات فردی آزادی کے معاملے میں اپنی سوچ وسیع کر رہے ہیں، خاص کر خواتین کے لئے۔جی اس میں ابھی کچھ اور وقت ہے مگر اکانومی میں بڑھتی ہوئی تبدیلی مختصر وقت میں خاصی مثبت تبدیلی لا رہی ہے۔آپ حیران ہو رہے ہوں گے اس سب میں یونی سٹار کا کیا تعلق ہے؟ میں اس پر یہ کہوں گا کہ،پہلے سوپر پاور نے آٹومیٹک سکوٹرز متعارف کروائے اور اب یونی سٹار پاکستان میں یہی ٹیکنالوجی سی ڈی 70کی مشہور زمانہ شکل میں پیش کر رہی ہے۔کمپنی کو اس موٹر با ئیک کے بے پناہ آرڈرز تو شاید نہیں ملے لیکن اس نئی اسطلاح نے ایک کامیابی تو حاصل کی ہے اور وہ ہے’لوگوں میں مقبولیت‘جس کا مطلب شورومز میں لوگوں کی بڑھتی تعداد اورمعزز صارفین ہے۔
آٹو میٹک بائیکس کی ’پراس اینڈ کانز‘۔
اس نئی بائیک کی ’پراس‘ کافی آسان ہے، اس کو چلنے کے لئے بہت کم کوشش درکار ہے،جیسا کہ اس کے لئے کلچ کی ضرورت ہی نہیں،اس کی اصل قدر یہی ہے کہ اس کو تھرٹل دیں اور چلائیں۔یہ تھرٹل کوکنٹرول کرنے کے برتاؤ سے ہی گئیر ڈالے اور نکالے گی۔اس بائیک کے’کانز‘روائت میں تبدیلی،ایک نئی اور انوکھی چیز کے طور پر جانے جانا، اور اس کے استعمال کی عادت ڈالنا ہوں گے(کیونکہ اس میں کلچ اور خودکار گیئر سیلیکٹر نہیں ہیں)۔ جیسا کہ اس بائیک میں کِک اور گئیرنہیں ہے،یہ پوری بائیک الیکٹرک ہے اور اگر کسی وجہ سے اس کی بیٹری ڈاؤن یا خراب ہے یا اگنیشن سوئچ کام نہیں کر رہا تو اس بائیک کو سٹارٹ کرنے یا سواری کرنے کا کوئی دوسرا حل یاطریقہ نہیں۔ آخری مگر اختتامی نہیں اوروہ یہ کہ وقت کے ساتھ ہم نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ پاکستانی عوام پائیدار اور سمپل بائیک کوترجیح دیتے ہیں، ہنڈا سی۔جی۔125کی مثال ہی لے لیں،یہ آسان بھی ہے اور ہر جگہ اس کا کام ہو جاتا ہے،سڑکوں پر موجودتقریباً ہر مکینک اس کو سمجھ لیتا ہے اور سب سے اہم کہ یہ 100فیصد مقامی ہے، جس کا مطلب اس کو مینٹین رکھنے میں آسانی ہے۔ان نئی اور آٹو میٹک بائیکس کو ماہرین اورسپیشل ٹولزر کی ضرورت ہو گی،اور میں خوفزدہ ہوں کہ اس کو مینٹین رکھنا یا تبدیل کرنا دونوں خرچ کا باعث ہو گا۔جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں،کہ اس بائیک کی آمد سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہے۔بجائے اس کے کہ یہ لوگوں میں اس کمپنی کی پی۔آربڑھائے اور ان میں سے کچھ چنندہ صارف نکلیں جو کہ اس نئی بائیک کو خریدنے کی خواہش رکھتے ہوں۔