کیا پاکستان کا آٹو سیکٹر دوبارہ اُٹھ پائے گا؟

0 169

پاکستان کے آٹو سیکٹر کی موجودہ صورت حال خود ایک راز بنی ہوئی ہے۔ معیشت کے سکڑنے کا دورانیہ بہت پھیل گیاہے، لیکن یہ حالات ہی مقامی آٹو انڈسٹری کی بحالی کی راہ میں حائل نہیں ہیں۔ حکومت نے خود بھی گاڑیوں پر متعدد ٹیکسز لگائے ہیں جنہوں نے مجموعی صورت حال کو بدتر کر دیا ہے اور مقامی آٹو مینوفیکچررز بھی اپنی فروخت کو بہتر بنانے کے لیے متبادل منصوبے نہیں رکھتے۔ نتیجتاً گاڑیوں کی قیمتوں میں پچھلے ایک سال میں ناقابلِ یقین اضافہ ہوا ہے اور یوں فروخت منہ کی بل گرگئی ہے۔ تو آٹو سیکٹر آخر کب تک ان بدترین حالات سے دوچار رہے گا؟ 

روپے کی قدر میں کمی نہ ہونے کے باوجود قیمتوں میں اضافہ: 

مقامی آٹو انڈسٹری کی حالت بنیادی طور پر امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے آنے والی کمی کی وجہ سے تبدیل ہوئی۔ تمام آٹومیکرز نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں کئی مرتبہ تبدیلیاں کیں۔ ایک سال میں امریکی ڈالر تقریباً 30 فیصد بڑھا ہے، لیکن اس عرصے میں قیمتوں میں لگ بھگ 40 فیصد اضافہ ہوا۔ بلاشبہ روپے کی قدر میں کمی نے قیمتوں پر منفی اثرات مرتب کیے، لیکن پچھلے چند مہینوں میں تو روپے کی قدر میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے، پھر بھی قیمتیں بڑھائی گئی ہیں۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی شرحِ تبادلہ 164 روپے تک جا پہنچی تھی لیکن اب یہ 155 روپے پر ہے۔ مقامی آٹومیکرز کو اپنی کاروں کی قیمتیں بڑھانے کے لیے ہمیشہ کوئی کوئی بہانہ مل ہی جاتا۔ ان بدترین حالات میں اپنی مصنوعات پر کوئی رعایت دینے کے بجائے انہوں نے مارکیٹ میں دستیاب موجودہ ماڈلز میں معمولی سی تبدیلیاں کرکے گاڑیوں کی قیمتوں کو بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہونڈا اٹلس نے اپنی کومپیکٹ ایس یو وِی BR-V کا فیس لفٹ ورژن متعارف کروایا اور ساتھ ہی قیمت میں 1,00,000 روپے کا اضافہ کردیا، جس میں مزید اضافہ بھی متوقع ہے کیونکہ اس حالیہ اضافے کو تعارفی قیمت قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح یونائیٹڈ نے مارکیٹ میں موجود اپنی گاڑی براوو کی قیمت بڑھائی ہے، چند فیچرز متعارف کروا کے کہ جو ویسے ہی اس کی لانچنگ کے وقت فراہم کیے جانے چاہیے تھے۔ دوسری جانب فا نے بھی اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیے ہیں، وہ بھی بغیر کسی بہتری کے۔ صارفین کی قوتِ خرید پہلے ہی بہت کم ہو چکی ہے اور قیمتوں میں ایسی تبدیلیاں آٹومیکرز کے لیے کسی بھی طرح مددگار نہیں ہوں گی۔ بلکہ ایسی حرکتوں سے حالات مزید خراب ہی ہو رہے ہیں۔ 

آٹو کمپنیوں کے لیے خراب وقت: 

پاکستان میں تین بڑے آٹو اداروں یعنی پاک سوزوکی، ٹویوٹا انڈس اور ہونڈا اٹلس کو اب مقامی سیکٹر میں کِیا اور ہیونڈائی جیسے نئے اداروں کا بھی سامنا ہے۔ البتہ موجودہ صورت حال تو پہلے سے موجود آٹومیکرز پر ہی رحم نہیں کھا رہی کہ جن کی فروخت میں موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 39 فیصد کمی آئی ہے۔ ساتھ ہی یہ مارکیٹ میں آنے والے نئے اداروں کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر رہی ہے کہ جو ملک میں طویل المیعاد سرمایہ کاری منصوبوں کے تحت کئی ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ ٹویوٹا انڈس اور ہونڈا اٹلس پہلے ہی جولائی 2019ء سے غیر پیداواری ایام (NPDs) کا سامنا کر رہے ہیں۔ موجودہ مہینے تک انڈس موٹرز اور ہونڈا اٹلس کے NPDs کی تعداد بالترتیب 50 اور 62 تک جا پہنچی ہے۔ دونوں جاپانی اداروں کے پیداواری پلانٹس اپنی آدھی صلاحیت پر کام کر رہے ہیں۔ دونوں آٹومیکرز اپنی انوینٹوریز خالی کرنے میں ناکام ہوئے ہیں کہ جن میں گاڑیوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب پاک سوزوکی نے اب تک غیر پیداواری ایام کا سامنا نہیں کیا۔ ممکنہ طور پر کمپنی اپنی 660cc سوزوکی آلٹو کی جانب سے ستمبر 2019ء میں ایک مہینے میں سب سے زیادہ فروخت کا نیا ریکارڈ بنانے کی وجہ سے کسی بحران سے بچ گئی۔ اس عرصے میں آلٹو کے 4,924 یونٹس فروخت ہوئے کہ جو کمپنی کی فروخت کے اعداد و شمار کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ 

آٹو سیکٹر پر ٹیکس کے اثرات: 

آٹو انڈسٹری کے نمائندوں کا سمجھنا ہے کہ موجودہ صورت حال 2022ء تک برقرار رہے گی، کیونکہ اسے معمول تک آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ مقامی انڈسٹری کی نمو موجودہ حکومت کے پالیسی میں بارہا تبدیلیوں کی وجہ سے بڑی حد تک متاثر ہوئی۔ اس نے گاڑیوں کے خریدنے پر مختلف ایڈیشنل ٹیکس، ڈیوٹیاں اور پابندیاں لگائیں۔ نان-فائلرز کے گاڑیاں خریدنے پر پابندی کے حوالے سے پالیسی بارہا تبدیل کی گئی اور انہیں ٹیکس دائرے میں لانے کے لیے بھاری ٹیکس بھی لگائے گئے۔ اسی دوران فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کا اطلاق ہوا اور بعد ازاں اسے تمام اقسام کی گاڑیوں تک پھیلا دیا گیا کہ جو 2.5 سے 7.5 فیصد کی شرح سے لاگو ہیں۔ آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی (ADP) ‏2016-21ء‎ مقامی آٹو سیکٹر کی زبردست توسیع کے تصور کے ساتھ بنائی گئی کیونکہ اس نے نئے اداروں کو ٹیکس پر متعدد رعایتیں پیش کیں۔ اس کا ہدف مقامی سیکٹر میں مسابقت کی فضاء کو پروان چڑھانا اور بہترین معیار کی مصنوعات متعارف کروانا تھا۔ لیکن فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کی جانب سے ہائی-اینڈ گاڑیوں کی خریداری پر آمدنی کے ذرائع ثابت کرنے کے مطالبے کے بعد سے عوام نے گاڑیوں کی فروخت سے اجتناب شروع کردیا۔ بینکوں کی شرحِ سود بھی 15 فیصد تک جا پہنچی ہے، جس کا نتیجہ کار فائنانسنگ میں بڑی حد تک کمی کی صورت میں نکلا۔ گاڑیوں کی قیمتیں دیکھیں تو 33 فیصد کی کم سے کم ڈاؤن پیمنٹ بھی اب صارفین کے لیے بہت بڑی رقم بن گئی ہے۔ ایک انٹری-لیول کی ہیچ بیک خریدنا بھی اب ایک عیاشی بن گئی ہے۔ 

آٹومیکرز قیمتیں کم کرنے میں ہچکچاتے ہوئے:

جہاں تک آٹومینوفیکچررز کا معاملہ ہے، کسی نے بھی درآمد شدہ پرزوں پر اپنے انحصار کو کم کرنے کا آغاز نہیں کیا۔ گاڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی بڑی مقدار درآمد شدہ ہے اور ایڈوانسڈ کسٹمز ڈیوٹی کے اطلاق نے گاڑیوں کی قیمتوں کو مزید متاثر کیا۔ لوکلائزیشن کے عمل میں اضافہ آٹو انڈسٹری کو مینوفیکچرنگ کی لاگت پر روپے کی گھٹتی ہوئی قدر کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دے گا۔ اپنے منافع کے مارجن گھٹاتے ہوئے گاڑیوں پر رعایت پیش کرنے کے بجائے کمپنیاں قیمتوں میں مزید تبدیلیاں کرر ہی ہیں۔ یہ پالیسیاں فروخت کو بہتر بنانے میں مددگار نہیں ہوں گی کیونکہ اب ہم سال کے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ان مہینوں میں خریداری کا رحجان عموماً کم ہی ہوتا ہے۔ صارفین عام طور پر ماڈل کا سال تبدیل ہونے کا انتظار کرتے ہیں، جس کا نتیجہ سال کے اختتام پر کم سیلز کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری حکومت کو اپنے غیر ضروری ٹیکس ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آٹو سیکٹر دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے۔ فروخت کے کم حجم پر بھاری ٹیکس سے ہونے والی آمدنی کبھی بھی بڑے حجم پر معمولی ٹیکس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اسے ایسا میکانزم بھی ترتیب دینا چاہیے جو تمام آٹومینوفیکچررز پر اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی کچھ حدیں مقرر کریں۔ امید کرتے ہیں کہ آٹوموبائل انڈسٹری کے لیے حالات بہتر ہوں گے اور ٹیکس کلیکشن میں ملک کا یہ سب سے بڑا شعبہ ایک مرتبہ پھر بھاری مقدار میں ریونیو پیدا کرنے میں مدد دے گا۔ 

اپنی تجاویز نیچے تبصروں میں پیش کیجیے اور آٹوموبائل انڈسٹری کی مزید خبروں کے لیے پاک ویلز کے ساتھ رہیے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.