پاکستانی موٹر سائیکل سوار ہمیشہ حفاظتی تدابیر کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟
پاکستان میں موٹر سائیکل چلانا صرف سفر کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ روزمرہ زندگی، مالی مشکلات، اور مقامی عادات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ اگر آپ کسی مصروف چوراہے پر کھڑے ہو جائیں تو دیکھیں گے کہ زیادہ تر موٹر سائیکل سوار گاڑیوں کے بیچ میں سے نکل جاتے ہیں، بغیر آئینہ دیکھے یا اشارے دیے۔ یہ حیران کن رویہ سوال پیدا کرتا ہے: پاکستانی موٹر سائیکل سوار اتنی عام حفاظتی تدابیر کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟
1. ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہ ہونا
اس کی ایک بڑی وجہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔ دبئی جیسے ممالک میں اگر کوئی معمولی غلطی بھی کرے تو اسے بڑا جرمانہ بھرنا پڑتا ہے، اس لیے وہاں کے شہری محتاط ڈرائیونگ کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر سختی سے عمل نہیں کروایا جاتا۔
نتیجتاً، لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ لال بتی توڑ کر نکل سکتے ہیں، بغیر اشارہ دیے لین بدل سکتے ہیں، اور آئینے کے بغیر سفر کر سکتے ہیں—اور پھر بھی کوئی انھیں نہیں روکے گا۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر کسی عمل کا کوئی برا نتیجہ سامنے نہ آئے تو وہ آہستہ آہستہ عادت بن جاتا ہے۔
2. روڈ سیفٹی کی مناسب تربیت کی کمی
پاکستان میں زیادہ تر موٹر سائیکل سواروں کو روڈ سیفٹی کی باقاعدہ تربیت نہیں دی جاتی۔ عام طور پر، لوگ دوستوں یا گھر والوں سے سیکھتے ہیں، اور انھیں بس یہی آتا ہے کہ بائیک کو چلانا کیسے ہے—حفاظتی اصولوں کی زیادہ فکر نہیں کی جاتی۔
بہت سے سوار نہیں جانتے کہ:
- آئینہ کیوں ضروری ہے؟ یہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کو دیکھنے میں مدد دیتا ہے تاکہ بروقت ردعمل دیا جا سکے۔
- اشارے دینا کیوں اہم ہے؟ یہ دوسرے ڈرائیورز کو آپ کے ارادے سے آگاہ کرتا ہے تاکہ حادثات سے بچا جا سکے۔
جب بنیادی تربیت ہی نہ ہو، تو موٹر سائیکل سوار آئینے اور اشاروں کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور انہیں استعمال نہیں کرتے۔
3. مالی مشکلات
پاکستان میں بہت سے افراد کے لیے موٹر سائیکل سب سے سستا اور آسان سفری ذریعہ ہے۔ اگر بائیک کا آئینہ ٹوٹ جائے یا اشارہ خراب ہو جائے، تو ان کے لیے اسے درست کروانا ایک اضافی خرچ بن جاتا ہے۔
زیادہ تر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ:
- “اگر بائیک اسٹارٹ ہو رہی ہے، تو وہ بالکل ٹھیک ہے!”
- “گھر کا راشن زیادہ ضروری ہے یا آئینہ لگوانا؟”
اس مالی دباؤ کے نتیجے میں، بہت سی بائیکس بغیر آئینے اور کام نہ کرنے والے اشاروں کے ساتھ سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں، جو حادثات کا خطرہ بڑھاتی ہیں۔
4. حکومتی مدد کا فقدان
زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں، کم آمدنی والے افراد کے لیے ایسے پروگرام موجود ہوتے ہیں جو انہیں گاڑیوں کی مرمت یا حفاظتی سامان خریدنے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں۔
یہاں اگر کسی کے پاس موٹر سائیکل ہے، تو اسے اس کی ہر مرمت اپنی جیب سے کرانی پڑتی ہے۔ اور جب کسی کے پاس محدود وسائل ہوں، تو وہ پہلے بنیادی ضروریات پوری کرے گا، نہ کہ ٹوٹے ہوئے آئینے یا خراب اشارے پر خرچ کرے گا۔
5. دوسروں کی نقل کرنا
انسانی نفسیات میں ایک اور چیز شامل ہے: ہم وہی کرتے ہیں جو ہمیں اپنے ارد گرد نظر آتا ہے۔
اگر ایک نیا سوار دیکھے کہ بزرگ یا تجربہ کار لوگ بھی بغیر اشارے دیے گاڑی چلاتے ہیں، تو وہ بھی یہی سمجھے گا کہ “اگر یہ سب کر رہے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں!”
یہی وجہ ہے کہ حتیٰ کہ وہ لوگ جو بہتر جانتے ہیں، وہ بھی آئینے اور اشارے استعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی اور بھی ان پر عمل نہیں کر رہا۔
نتیجہ
اگر ان تمام وجوہات کو اکٹھا کیا جائے—قوانین پر سختی نہ ہونا، روڈ سیفٹی کی تربیت کا فقدان، مالی مسائل، حکومتی مدد کی کمی، اور دوسروں کی تقلید—تو یہ سمجھ آتا ہے کہ پاکستانی موٹر سائیکل سوار حفاظتی تدابیر کیوں نظر انداز کرتے ہیں۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ پاکستانی سوار فطرتاً لاپرواہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا نظام موجود ہی نہیں جو انہیں حفاظتی تدابیر اپنانے پر مجبور کرے یا انہیں ان پر عمل درآمد میں مدد دے۔
دیگر ممالک میں، پاکستانی ڈرائیورز ہر قانون کی مکمل پابندی کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہاں قوانین سخت ہیں اور ان پر جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔
اگر پاکستان میں بھی ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے، آگاہی مہم چلائی جائے، اور ضرورت مندوں کو مالی مدد فراہم کی جائے، تو ہم اپنے موٹر سائیکل سواروں کو آئینے اور اشارے استعمال کرنے کی عادت ڈال سکتے ہیں—اور یوں سڑکوں کو سب کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں۔