ایکوا GS کرولا سے زیادہ بہتر ہے، مالک کی ںطر سے
آج ہم آپ کیلئے ایکوا GS کا آنر ریوئیو لے کر آئے ہیں۔ گاڑی کے مالک نے اسے ڈیڑھ ماہ قبل 2900000 لاکھ روپے میں خریدا۔ یہ 2015 ماڈل ہے لیکن اسے 2018 میں امپورٹ کیا گیا اور 2019 میں اس کی رجسٹریشن کروائی گئی۔
اپ گریڈیشن
مالک کے مطابق کمپنی نے نئے بمپر، سائیڈ سکرٹس، بیجنگ اور پش سٹارٹ بٹن کے ساتھ گاڑی کو سپورٹی بنایا ہے۔
نمایاں خصوصیات
گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ گاڑی کا انٹیرئیر کافی پریمیم کوالٹی رکھتا ہے۔ اسکے علاوہ گاڑی میں پاور سٹیرنگ، پاور ونڈوز، ریٹریکٹیبل سائیڈ ویو مِرر، ٹریکشن کںٹرول، ایکو موڈ، EV موڈ، ہائی اور لو بیم ہیڈلائٹس اور ایل ای ڈی فوگ لیمپس جیسے فیچرز موجود ہیں۔ گاڑی کا انٹیرئیر کالے رنگ کا ہے جو اونر کو کافی پسند ہے۔
فیول ایوریج
شہر کے اندر گاڑی کی فیول ایوریج 22 سے 24 کلومیٹر فی لیٹر ہے جبکہ لمبے سفر پر یہ ایوریج اور بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
کمفرٹ
گاڑی میں آرم ریسٹ اور بکِٹ سیٹس کے علاوہ کافی ہیڈ اور لیگ روم بھی دیا گیا ہے۔ گاڑی کے مالک کے مطابق گاڑی کی ڈرائیو بہترین ہینڈلنگ کے ساتھ کافی ہموار بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ 80 یا 90 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی کٹ لیتے ہیں تو اس صورت میں بھی گاڑی کا توازن برقرار رہے گا جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گاڑی کرولا سے بھی زیادہ متوازن یعنی بیلنسڈ ہے۔
مسِنگ فیچر
یہ ایک ہیچ بیک گاڑی ہے لیکن پھر بھی مالک کا کہنا ہے کہ وہ اس میں سن روف کو دیکھنا چاہتے تھے۔ یاد رہے کہ ہیچ بیک میں سن روف جیسا فیچر متعارف کروانا انتہائی مشکل کام ہے۔
گراؤنڈ کلئیرنس
لوگ ایکوا جی ایس خریدنے سے پہلے ہچکچاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی گراؤنڈ کلیئرنس کم ہے لیکن گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ سب آپ کی ڈرائیو پر منحصر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے اس کار کو چار لوگوں کے ساتھ چلایا ہے اور مجھے کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم،اگر پانچ افراد ہوں تو مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
دیکھ بھال پر آنے والی لاگت
مالک کے مطابق اس کار کی دیکھ بھال پر آںے والی لاگت اتنی زیادہ نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کے ڈرائیونگ سٹائل پر منحصر ہے۔ مالک کا کہنا ہے کہ میں لمبے روٹ پر باقاعدگی سے سفر کرتا ہوں اور اس کے باوجود مجھے اس کے بریک اور تھروٹل باڈی کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ میں ہر 7 سے 8 ہزار کلومیٹر کے بعد گاڑی کی سروس کرواتا ہوں۔
سپئیر پارٹس
مالک کا کہنا ہے کے گاڑی کے پارٹس مل جاتے ہیں لیکن آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے پارٹس ڈھونڈنے کے لیے آپ کو تھوڑا سفر کرنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹس بھی وزٹ کرنا ہوں گی جس کے بعد آپ کو یہ مل جائیں گے ۔ اس کے علاوہ اس کے پارٹس مقامی طور پر تیار کیے جانے والی گاڑیوں کی نسبت مہنگے ہیں۔
ری سیل
مالک کا کہنا ہے کہ میں نے اسے 2900000 روپے میں خریدا ہے لیکن میں اسے تقریبا 3200000 روپے میں فروخت کر سکتا ہوں۔ انکا کہنا ہے کہ اس کی ری سیل سٹینڈرڈ ایکوا کے مقابلے میں تھوڑی سست ہے کیوں کہ اس کی ایک مخصوص فین فالونگ ہے۔