کسٹمز نے گوادر میں 22 اسمگل شدہ گاڑیاں ضبط کر لیں
پاکستان کسٹمز نے ملک میں اسمگل کی گئی 22 امپورٹڈ گاڑیاں ضبط کر لی ہیں۔ ایک بیان میں ڈپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ اس گاڑیوں کو نان-ڈیوٹی گاڑیوں کے خلاف ایک آپریشن میں ضبط کیا گیا ہے۔
ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں کی کُل مالیت 45 ملین روپے ہے۔
کسٹمز کی کارروائی پر FBR کی رائے:
ایف بی آر نے SRO 886 کے ذریعے امپورٹڈ سامان کے لیے Draft De Minimus رولز جاری کیے ہیں۔ اس مسودے (ڈرافٹ) پر عوام کی شکایات اور آراء طلب کی گئی ہیں۔
The Draft Rules provide for duty free import of good imported via postal and courier service provided invoice value of goods is not more than Rs. 5000. 2/2
— FBR (@FBRSpokesperson) September 21, 2020
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ “ڈرافٹ رولز پوسٹل اور کوریئر سروس کے ذریعے اشیاء کی ڈیوٹی فری درآمد فراہم کرتے ہیں۔ ان چیزوں کی مالیت 5,000 روپے سے زیادہ نہ ہو۔”
FBR has issued Draft De Minimus Rules for Imported Goods vide SRO 886 dated 17.9.2020 to seek objections and suggestions from general public, if any; before their final issue.1/2
— FBR (@FBRSpokesperson) September 21, 2020
اس سے پہلے ایف بی آر نے 19 لگژری گاڑیاں بھی مشتبہ ڈاکیومنٹس پر ضبط کر لی تھیں۔ ادارے کا بے نامی زون غیر رجسٹرڈ دولت اور بے نامی اکاؤنٹ کی تحقیقات کرتا ہے۔
انہوں نے جو گاڑیاں ضبط کیں ان میں بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز شامل تھیں۔
خبروں کے مطابق ادارے نے ان کاروں کو بے نامی اکاؤنٹس کے بارے میں جاری تحقیق کے دوران ضبط کیا۔ ایف بی آر نے کہا کہ “یہ گاڑیاں ملکیت کے درست ڈاکیومنٹس نہیں رکھتی تھیں۔”
بورڈ نے مزید کہا کہ یہ کاریں اصل مالکان کے پاس کام کرنے والے افراد کے ناموں پر رجسٹرڈ تھیں۔ ضبط کی گئی گاڑیوں میں 2 مرسڈیز، 2 بی ایم ڈبلیو اور دوسری لگژری گاڑیاں شامل ہیں۔ “ان کاروں کی ملکیت 120 سے 150 ملین روپے ہے۔”
ادارے نے مزید کہا کہ اس نے حقیقی مالکان کو الزامات کے جواب کے لیے سات دن کی ڈیڈلائن دی ہے۔ ایف بی آر نے زور دیا کہ “بصورتِ دیگر حکومت ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی۔”
ایسا پہلی بار نہیں ہوا:
جولائی 2020ء میں پاکستان کسٹمز نے غیر ملکی سفارت کاروں کی جانب سے امپورٹ کروائی گئی 9 لگژری گاڑیاں قبضے میں لیں۔ خبروں کے مطابق یہ گاڑیاں ان سفارت کاروں اور ایک سفیر کے نام پر امپورٹ کی گئی تھیں، جبکہ اصل میں وہ انفرادی شخصیات کے استعمال میں تھیں۔
قومی خزانے کو نقصان:
خبروں کے مطابق اس سے سفارت کاروں کے لیے سکیورٹی خطرہ بن سکتا تھا اور قومی خزانے کو 250 ملین روپے کا نقصان بھی پہنچا۔ دفترِ خارجہ پاکستان اس خبر سے آگاہ ہے اور اس نے غیر ملکی سفارت خانوں سے اس معاملے کی وضاحت مانگی ہے۔