پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بگ تھری کار کمپنیز پر شدید برہم

0 1,358

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) نے حال ہی میں آٹوموٹیو سیکٹر کے سٹینڈرڈز پر تبادلہ خیال کے لیے ایک میٹنگ بلائی۔ اس دوران چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے پاکستان میں مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں کے گرتے معیار پر برہمی کا اظہار کیا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین عاصم احمد، سیکریٹری صنعت و پیداوار امداد بوسال، انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کے سی ای او رضا عباس شاہ اور کار کمپنیوں کے نمائندوں نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔

جلاس کا مقصد

پینل نے پاکستانی آٹو موٹیو انڈسٹری کے درج ذیل مسائل پر تبادلہ خیال کیا

  • کار کی ڈلیوریز میں تاخیر
  • مقامی طور پر تیار کی جانے والی گاڑیوں کا خراب معیار
  • مقامی طور پر تیار شدہ گاڑیوں میں کم سیفٹی فیچرز
  • گاڑیوں کے پرزوں کی لوکلائزیشن

چیئرمین پی اے سی نے بڑی 3 کار کمپنیوں (پاک سوزوکی، ٹویوٹا انڈس، اور ہنڈا اٹلس) کے سی ای اوز کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے اور ان خدشات کا جواب دینے پر بلایا۔

یہ معاملہ اس وقت بگڑا جب سوزوکی کے نمائندے نے بتایا کہ کمپنی کے پاس 20000 یونٹس کے آرڈرز ہیں، اور دعویٰ کیا کہ نئی سوزوکی کاروں میں تمام حفاظتی خصوصیات موجود ہیں۔ پی اے سی کے چیئرمین نے اس بیان پر کہا کہ سوزوکی کاروں میں ایئر بیگ بھی نہیں ہوتے اور کمپنی کو اپنے حفاظتی معیارات کے بارے میں ایسا جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔

اس کے بعد چیئرمین نے نشاندہی کی کہ ان کمپنیوں نے 2010 میں کار کے پرزہ جات کی مقامی پیداوار کا عزم کیا لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ دریں اثناء، سینیٹر شبلی فراز نے آٹوموبائل کمپنیوں کو ’’مافیا‘‘ قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ملک مقامی طور پر انجن تیار کرنے سے کیوں قاصر ہے۔

میٹنگ اس نتیجے پر پہنچی کہ کار ساز اداروں کو اپنے معیار اور خدمات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (EDB) کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے۔

حکام نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت سی میٹنگز کیں لیکن ان اجلاں سے کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا پی اے سی کے الفاظ کار کمپنیوں کو متاثر کرتے ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.