
گزشتہ ایک سال سے پاکستان کی مقامی آٹو انڈسٹری اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ لیٹر آف کریڈٹ (LCs) نہیں ہیں، خام مال کی درآمد سے متعلق مسائل موجود ہیں، ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں اتار چڑھاؤ کا شکار ہے جس کی وجہ سے پروڈکشن پلانٹس بند کرنے جیسے اہم اقدامات نظر آ رہے ہیں۔ اس دوران یہ بحث جاری ہے کہ آیا مقامی سطح پر تیار کردہ گاڑیاں جن میں ان کی قیمت کے مطابق فیچرز اور خصوصیات فراہم کر رہی ہیں وہ بہتر ہیں یا درآمد شدہ جاپانی کاریں ہی ایک بہتر آپشن ہیں۔ اس بحث میں دونوں طرف کے حامی ہیں، اور یہ موضوع ایک حالیہ پوڈ کاسٹ کے دوران زیر بحث آیا جس کی میزبانی ہمارے اپنے ہی سنیل منج نے کی جس میں مشہور ماہر اقتصادیات علی خضر بطور مہمان تھے۔
کیا آٹو انڈسٹری کو مکمل طور پر بند کر دینا چاہیے؟
اس بحث کے دوران سنیل نے کہا کہ آسٹریلیا جیسے ممالک اور افریقہ کے کچھ ممالک نے محسوس کیا ہے کہ ان کی کھپت کم ہے، اس لیے انہوں نے مقامی طور پر تیار کرنے کی بجائے دونوں نئی اور استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کا فیصلہ کیا موجودہ حالات کے تناظر میں، عام آدمی کی آمدنی اور پیداوار کی حالت زار دیکھتے ہوئے کیا پاکستان میں آٹو انڈسٹری سے متعلق ہمیں صرف درآمد پر توجہ دینی چاہیے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر اقتصادیات علی خضر نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے پچھلے 30-40 سالوں میں دیکھا ہے کہ بگ 3 میں دو کمپنیوں نے مینوفیکچرنگ کو لوکلائز نہیں کیا ہے جبکہ سوزوکی نے لوکلائزیشن پر عمل کیا ہے لیکن یہ ٹرانسفر پرائسنگ عائد کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ درآمد شدہ کاروں کے پرزہ جات صارفین کو فروخت کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ نئی کمپنیاں بھی ایسا ہی کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کار کمپنیاں اپنی گاڑیاں ایکسپورٹ کے بغیر کاروبار کو بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں کیونکہ مقامی طور پر اسمبل شدہ کاروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کمپنیاں جو واحد بنیادی دلیل پیش کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ ایک کار پانچ ملازمتیں پیدا کرتی ہے لیکن مناسب طور پر ان پانچ میں سے تین آفٹر مارکیٹ سے متعلقہ نوکریاں ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ کہ ان ملازمتوں کو کار امپورٹ میں منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ حکومت کو اعلان کرنا چاہیے کہ اگلے 4 سے 5 سالوں میں درآمد اور گاڑیاں مقامی طور پر تیار کرنے پر ڈیوٹی اور ٹیکس ایک جیسے ہوں گے جو بالآخر مساوی مسابقت کی فضا پیدا کرے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کمپنیوں نے گزشتہ 4-5 دہائیوں میں صارفین کو زیادہ کچھ خاص فائدہ نہیں دیا ہے۔
دوسرا نقطہ نظر
اوپر دی گئی دلیلوں کے برعکس کا سنیل منج نے آٹو انڈسٹری کے لیے پالیسیوں میں عدم مطابقت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے اپنا موازنہ بھارت سے کیا، ہماری نسبت بھارت نے کئی برسوں سے اپنی مقامی طور پر تیار کردہ کاروں کو جاری رکھا ہے جبکہ ہمارے معاملے میں ہر حکومت اپنی الگ پالیسیاں لے کر آتی ہے۔ یعنی ایک حکومت مقامی طور پر اسمبل کاروں کو فروغ دینے پر توجہ دیتی ہے جب کہ دوسری کا خیال ہے کہ استعمال شدہ کاروں کی درآمد ہی بہتر ہے۔ جس سے انڈسٹری کو براہ راست نقصان پہنچا ہے۔
سنیل میج نے کہا کہ ہمیں صرف ایک پالیسی کا انتخاب کرنا ہوگا، اس سے قطع نظر کہ حکومت کس کی ہے۔ اس بحث کو آپ اس ویڈیو میں 25:53 سے سن سکتے ہیں۔
‘
اس بحث پر آپ کی کیا رائے ہے؟ مقامی آٹو انڈسٹری کو بند ہونا چاہیے یا نہیں؟ کمنٹس سیکشن میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔