ماضی کے جھروکوں سے: 80 کی دہائی میں پیش کی گئی گاڑیوں پر ایک نظر
گاڑی خریدنے والے شخص کی نظر سے دیکھیں تو موجودہ دور بہت برا ہے۔ اس وقت آپ کو صرف تین سیڈان (سِوک، سِٹی اور کرولا) اور چار ہیچ بیکس (مہران، کلٹس، ویگن آر اور سوِفٹ) ہی دستیاب ہیں۔ اگر آپ 1300 سی سی سیڈان لینے کے خواہش مند ہیں تو سِٹی یا کرولا میں سے کوئی ایک منتخب کرنا ہوگی۔ مزید بہتر مثلاً 1800 سی سی انجن والی گاڑی لینا چاہیں تو سِوک اور کرولا آلٹس ہی قابل ذکر ہیں۔ مختصر گاڑیوں یعنی ہیچ بیکس میں تو سوزوکی ہی سوزوکی ہے۔ ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کے بعد اگر بولان، راوی اور FAW کو بھی شمار کرلیں تو بھی زیادہ سے زیادہ تعداد 10 ہی ہوگی۔ گاڑیوں کے شعبے میں کام کرنے والے اس کی بنیادی وجہ صارفین کا رجحان ہے جو بعد از استعمال باآسانی فروخت ہوجانے والی گاڑیاں زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کے شعبے پر چند اداروں کی اجارہ داری طویل عرصے کی کوششوں سے بنائی گئی ہے جس کے پیچھے منافع خور سوچ والی شخصیات کا ہاتھ ہے۔
90 کی دہائی شروع ہوئی تو مقامی صنعتوں کے فروغ کا بہانہ بنا کر بیرون ملک سے گاڑیوں منگوانے کو بند کیا جانے لگا۔ آج کے مقابلے میں اُس وقت پانچ گنا زیادہ گاڑیوں کا انتخاب موجود تھا۔ کسی بھی ایسے شخص سے پوچھ لیں جو 70 یا 80 کی دہائی سے گاڑیوں کے شعبے پر نظر رکھ رہا ہو۔ لوگوں کے پاس زیادہ برانڈز موجود تھے ۔ استعمال شدہ گاڑیاں خریدنے کا رجحان بھی ویسا تھا جیسا آج ہے۔ آیئے اس دور کی مزید چند یادوں کو تازہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آج کے مقابلے میں 30 سال پہلے کی صورتحال کیا تھی۔
60 کی دہائی کے وسط میں جاپانی برانڈز نے گاڑیوں کی منڈی میں قابل ذکر برتری حاصل کرنا شروع کی۔ اس سے قبل یورپی اور امریکی گاڑیوں کو ترجیح دی جاتی تھی لیکن ان کا حجم بہت زیادہ تھا اور یہ گاڑیاں ایندھن بھی بہت زیادہ استعمال کرتی تھیں۔ اس کے برعکس جاپانی گاڑیاں چھوٹی و مختصر ہونے کے ساتھ ایندھن کے معاملے میں بھی بہت کفایتی تھیں۔ ان دنوں سب سے زیادہ مشہور جاپانی گاڑی ٹویوٹا کرونا RT40، مزدا 1500 اور ڈاٹسن بلوبرڈ تھیں۔ بعد ازاں 70 کی دہائی میں مزید گاڑیاں سامنے آئیں جن میں ٹویوٹا کرولا کے ساتھ ساتھ ڈاٹسن سنی اور مزدا فمیلیا نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ اس دہائی کے آخری سال سوزوکی، مٹسوبشی اور ڈائی ہاٹسو گاڑیاں بھی متعارف ہونا شروع ہوئیں۔
80 کی دہائی گاڑیوں کے شوقین افراد کے لیے سب سے بہترین دور تھا۔ صرف اس لیے نہیں کہ ہمارے پاس بہت سی نئی گاڑیوں کا انتخاب موجود تھا بلکہ ہر تین سال بعد گاڑیوں کا نیا انداز بھی پیش کیا جاتا تھا۔ یوں 1980 سے 1989 تک 1000 سی سی ہیچ بیکس ڈائی ہاٹسو شیراڈ کی تین جنریشنز پیش کی گئیں۔ ان شیراڈ گاڑیوں کو مختلف انداز کے ساتھ ڈیزل، پیٹرول اور ٹربو انجن کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹویوٹا اسٹارلٹ، نسان پلسار، سوزوکی سوفٹ، سوبارو J10 وغیرہ کے بھی بہت سے انداز پیش کی گئے جن کا مجموعہ 20 سے بھی زائد بنتا ہے۔اس حوالے سےاگلی دہائی بہت مایوس کن رہی اور صرف سوزوکی خیبر کی ایک بار تجدید کے علاوہ کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔ 90 کی دہائی کے اواخر میں کیا پرائڈ نے مارکیٹ میں جگہ بنائی تاہم صرف چند سالوں بعد ہی کیا موٹرز نے پاکستان سے بوریا بستر سمیٹ لیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایٹلس ہونڈا 100 ملین ڈالر سرمایہ کاری سے کیا جدید بائیک کا خواب پورا ہوگا؟
صرف یہی نہیں بلکہ 2010 میں مقامی طور پر تیار شدہ ہیچ بیک معیار کے اعتبار سے اسی کی دہائی میں پیش کی جانے والی ہیچ بیک سے کم تر ہے۔ سوزوکی آلٹو کی مثال لے لیں جس میں پچھلا شیشہ صاف کرنے یا دائیں بائیں موجود آئینوں کا معقول انتظام بھی موجود نہ تھا اور 80 کی دہائی میں ہمیں ایسی کئی ایک خصوصیات گاڑی میں شامل ملتی تھیں۔
اگر آپ نے 1300 سی سی سیڈان خریدنی ہو تو 80 کی دہائی میں ڈائی ہاٹسو شرمنٹ، ہونڈا سِوک، ٹویوٹا کرولا، ٹویوٹا اسپرنٹر، مزدا 323، مٹسوبشی لانسر، نسان سنی اور بہت سے نام کئی ایک انداز سے دستیاب تھے۔ صرف تعداد ہی نہیں بلکہ بیرونی اور اندرونی انداز کے بھی ایسے آپشن تھے کہ جس کا آج کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ صرف ہونڈا سِوک ہی کی مثال لے لیتے ہیں۔ سِوک کی تیسری جنریشن 10 رنگوں میں دستیاب تھی جس کے اندرونی حصے کے لیے چار رنگوں (سیاہ، خاکی،گہرے سرخ اور نیلے) میں سے منتخب کیا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی گاڑیاں متعدد رنگوں میں دستیاب تھی اور آج؟ مقامی کارخانوں میں تیار ہونے والے گاڑی صرف ایک ہی رنگ میں دستیاب ہے اور انداز بھی سالوں سے تبدیل نہیں ہوا۔ اگر کوئی چیز تبدیل ہوئی ہے تو وہ صرف ان کی قیمت ہے۔
1500 سی سی کے زمرے یں دیکھیں تو ماضی میں ہونڈا اکارڈ، ٹویوٹا کرونا، کراؤن، مٹسوبشی گیلنٹ، مزدا 626 اور 929 کے ساتھ گاڑیوں کی ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ یہ گاڑیاں بہت بڑے انجن کی تصور کی جاتی تھیں لیکن وزنی گاڑیوں کے شوقین انہیں پسند کرتے تھے۔ 4×4 میں مٹسوبشی پجیرو میں شان و شوکت کی علامت سمجھی جاتی تھی جبکہ ٹویوٹا لینڈ کروزر، نسان پیٹرول اور کچھ چھوٹی گاڑیاں جیسے ڈائی ہاٹسو روکی اور سوزوکی SJ140 بھی نظر آتی تھیں۔
پرانے وقتوں میں گاڑیوں کے شوقین افراد ہر تین سال بعد آنے والے نئے انداز کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے اور اسی وجہ سے نسان، مزدا اور مٹسوبشی جیسے اداروں نے کئی ایک برانڈز سے مقبولیت حاصل کی۔ خاص طور پر نسان (ڈاٹسن) اور مزدا کی ساکھ مقامی مارکیٹ میں بہت اچھی تھی کیوں کہ وہ 60 کی دہائی سے کام کر رہے تھے اور انہیں صارفین کا بھروسہ حاصل تھا۔
اس دور میں جو گاڑیاں پاکستان میں متعارف کروائی گئیں انہیں 30 سال گزرنے کے باوجود پسند کیا جاتا ہے اور ان کے پرزے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ 80 کی دہائی میں پیش کی جانے والی ڈائی ہاٹسو شیراڈ کو آج بھی سڑکوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کرولا EE80 اور 90 بھی اپنے دور کی کامیاب ترین گاڑیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ڈیجیٹل اسپیڈومیٹر کے ساتھ آنے والی مٹسوبشی لانسر اور ہونڈا اکارڈ کی تیسری جنریشن بھی 80 کی دہائی میں سب سے باسہولت گاڑی سمجھی جاتی تھی۔
یہ بات ہمارے لیے قابل افسوس ہے کہ ہر شعبے کی طرح ہم گاڑیوں کے شعبے میں بھی آگے جانے کے بجائے پیچھے چلے گئے ہیں۔ جہاں 80 کی دہائی میں ایک گاڑی کے تین مختلف اندز پیش کیے جاتے تھے وہاں اب ایک ہی انداز کو آگے پیچھے کر کے سالہا سال سے چلایا جا رہا ہے۔ ایک طرف انڈس موٹرز نے ساتویں جنریشن E100 کرولا کو تقریباً 9 سال تک گھسیٹا تو دوسری طرف پاک سوزوکی 25 سال سے مہران اور مرگلہ سے نکالی گئی کلٹس کے انداز کو کھینچ رہی ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں کا تیسرا بڑا نام ہونڈا بھی سِٹی کو تقریباً 7 سال پہلے والے انداز ہی میں پیش کر رہا ہے۔ یہاں سب سے بزرگ 35 سالہ سوزوکی راوی اور بولان کا ذکر نہ کیا جائے تو غلط ہوگا کہ جو 1970 کے بعد سے اب تک ویسی ہی حالت میں بغیر کسی قابل ذکر تکنیکی بہتری کے آج تک موجود ہے۔
پاکستان میں گاڑیوں کا شعبہ بہت ترقی کرسکتا ہے بس ضروری اس امر کی ہے کہ یہاں موجود لوگوں کو ان کے مزاج کے مطابق زیادہ سے زیادہ گاڑیوں کا انتخاب کرنے دیا جائے۔ حکوت کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں آنے والی نئی کمپنیز کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں مقامی سطح پر گاڑیاں تیار کرنے کے لیے تمام ساز و سامان فراہم کریں۔ اس سے نہ صرف گاڑیوں کا شعبہ بلکہ مجموعی طور پر پورے ملک کی ترقی ممکن ہوسکے گی۔
1980ء کی دہائی میں آنے والی گاڑیوں کی چند تصویری جھلکیاں