کوئی بھی ایسی چیز جو پہئیوں پر چلتی ہو اس تک رسائی کی روائیت کو برقراررکھتے ہوئے پاک وہیلز ڈاٹ کام نسبت روڈ پر واقع ویسپا ریپئر گیراج تک جا پہنچی، 1966ء میں جائیں تو اس کی بنیاد جناب شوکت بٹ نے ایک ویسپا ریپئر ورکشاپ کے طور پر رکھی، جو کہ بعد ازاں ویسپا ریسٹوریشن میں تبدیل ہو گئی،جس کی وجہ پاکستان میں نئے ویسپا سکوٹرز کی فروخت پر بندش تھی۔یہ کام اب جناب مزمل بٹ(جناب شوکت بٹ کے بیٹے) اپنے والد کی زیرِنگرانی سر انجام دے رہے ہیں۔جو کہ اس سیٹ اپ کے بانی ہیں۔
پاک وہیلز جناب مزمل بٹ سے: کیا آپ اپنا تعارف کروائیں گے؟
میرا نام مزمل بٹ ہے اور میری تعلیم ایف اے ہے۔ میں اور میرے والد صاحب اس کام کو یعنی ویسپا سکوٹر ریسٹوریشن(جو کہ پیاجیو ویسپا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کو کئی برسوں سے چلاتے آ رہے ہیں۔درحقیقت پاکستان میں ویسپا سکوٹر کو ریسٹور کرنے والے اور موڈیفائی کرنے والے ہم پہلے لوگ تھے۔اور اللہ کے کرم سے ہم اب دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔
کیا آپ اور آپ کے والد ویسپا کی ریسٹوریشن کا کام اکیلے ہی سر انجام دیتے ہیں یا آپ کی کوئی ٹیم بھی ہے؟
مزمل بٹ:جی نہیں، میں اور میرے والد اکیلے ہی ویسپا ریسٹوریشن کے اس گیراج کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
کیا آپ ہمیں بتائیں گے اس سب کاآغاز کس طرح ہوا؟
مزمل بٹ: میرے والد صاحب نے تقریباً پچاس سال پہلے ویسپا ریپئرورکشاپ کی بنیاد رکھی اور ملک میں نئے ویسپا کی آمد رک جانے کے بعد انہوں نے اس کاروبار کو ویسپا ریسٹوریشن گیراج میں تبدیل کر دیا۔شروعات میں انہوں نے ایک رشتہ دار کے ساتھ مل کر ریسٹورڈ ویسپا انگلینڈ بھیجے، تب سے، ہم ویسپا سکوٹر دنیا بھر میں بھیج رہے ہیں۔
کیا آپ نے سکوٹر ریسٹوریشن کی کوئی پراپر تعلیم لی ہے یا یہ مہارت اپنے والد سے سیکھی ہے؟
مزمل بٹ: میں نے یہ مہارت اپنے والد سے ہی سیکھی ہے، دس برس پہلے جب میں طالبِ علم تھا، میں فارغ وقت میں ورکشاپ آ کر اپنے والد کی مدد کرتا تھا۔اور اب میں اپنے آپ کوپوری طرح ویسپا سکوٹر ریسٹور کرنے کے قابل سمجھتا ہوں۔
کیا آپ ریسٹورڈ ویسپا فروخت بھی کرتے ہیں یاآ پ صرف صارفین کے سکوٹر ز ہی ریسٹور کرتے ہیں؟اصل میں آپ کے کسٹمرز کون ہیں؟
مزمل بٹ: ہم نا صرف مقامی صارفین کے سکوٹر ریسٹور کرتے ہیں بلکہ پرانے ویسپا ریسٹور کر کے انہیں اندرو ن اور بیرونِ ملک بھی فروخت کرتے ہیں۔ہمارے صارف پاکستانی اورغیر ملکی لوگ ہیں۔
کیا آپ ان ممالک کے نام بتا سکتے ہیں جہاں آپ ریسٹورڈ ویسپا بھجتے ہیں؟
مزمل بٹ: ابھی تک، ہم ریسٹورڈ ویسپا سکوٹرز، بیلجیئم، جرمنی، آسٹریلیا، یو۔کے، پیرس، تھائلینڈ، ویتنام، تائیوان اور یورپ کے بہت سے ممالک میں بھیج چکے ہیں۔
پاکستان کے کس شہر سے آپ کوزیادہ ویسپا ریسٹور کرنے کے آرڈرز ملتے ہیں؟
مزمل بٹ: ویسے تو پاکستان بھر سے لوگ آرڈر کرتے ہیں مگر بالخصوص لاہور، کراچی، اسلام آباد سے زیادہ آرڈرز موصول ہوتے ہیں۔
کیا آپ اپنے صارفین تک رسائی کے لئے انٹر نیٹ کا سہارا بھی لیتے ہیں؟
مزمل بٹ: جی بالکل، انٹر نیٹ کے بنا یہ کاروبار چلانابہت مشکل ہے۔ہماری کاروباری ویب سائٹ بھی ہے جس کی بدولت ہم بین الاقوامی صارفین کی درخواستیں لیتے ہیں۔علاوہ ازیں لوکل آٹو موبائل صارفین تک پہنچنے کے لئے میرے مطابق پاک وہیلز ڈاٹ کام سب سے زیادہ با اعتماد ادارہ ہے۔آپ پاک وہیلز پر ویسپا سکوٹرز کی فروخت کے بے شمار اشتہارات دیکھ سکتے ہیں۔
کیا آپ ویسپا کے علاوہ بھی کسی دو پہیوں پر مشتمل سواری کو ریسٹور کرتے ہیں؟
مزمل بٹ: نہیں، ہم صرف ویسپا کو ہی ریسٹور کرتے ہیں۔
اس کاروبارمیں آپ کو کس قسم کی مشکلات کاسامنا ہوتا ہے؟
مزمل بٹ: سب سے بڑی مشکل جس کا سامنا ہے وہ ویسپا کے پارٹس کی عدم دستیابی ہے کیونکہ پاکستان میں لوگ ویسپا ریسٹوریشن کا کام چھوڑ چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہیں یہ پارٹس بہت سے بیرونی ممالک خاصکر انڈیا اور تھائلینڈ سے منگوانے پڑتے ہیں۔
آپ کو ایک پرانے یا خستہ حال ویسپا کو برانڈ نیو کرنے میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے؟
مزمل بٹ: ایک سکوٹر کو ریسٹور کرنے میں تقریباً تین سے چار ہفتے لگ جاتے ہیں۔یہاں میں یہ وضاحت کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ریسٹور کئے گئے سکوٹر میں بالکل نئے سکوٹر کے مقابے کچھ کم نہیں ہوتا۔
پرانے ویسپا کو ریسٹور کرنے میں کون کون سے عوامل شامل ہوتے ہیں؟
مزمل بٹ: سب سے پہلے ہم پرانا ویسپا سکوٹر خریدتے ہیں اور اسے مکمل کھول دیتے ہیں۔کھولنے کے بعد سب سے پہلا کام اس کی ڈینٹنگ ہوتا ہے،اس کے بعد رنگ کرنا،تاروں کی وائرنگ اور پھرباری آتی ہے بالکل نئی اسیسریز لگانے کی جیسا کہ سیٹیں، لائٹیں، الیکٹرک بٹن، اور نئے ٹائرز۔
ویسپا کے چاہنے والوں کا لگ بھگ کتنا خرچ آتا ہے آپ سے اپنا سکوٹر مکمل ریسٹور کروانے میں؟
مزمل بٹ: ویسپا سکوٹر کی مکمل ریسٹوریشن پر اٹالین اسیسریز کے ساتھ خرچ تقریباً ایک لاکھ روپے آتا ہے، اس کی وجہ صرف ملک میں ویسپا کے پارٹس کی عدم دستیابی ہے، ویسے پاکستان میں لوگ موٹربائیکس کو سکوٹرز پر ترجیح دیتے ہیں۔اور جب یہ باہر بھیجے جاتے ہیں تو ایک ویسپا سکوٹر تقریباً تین ہزار سے چار ہزاریو۔ایس۔ڈالرز میں فروخت ہوتا ہے۔
آپ پاکستان میں ویسپا سکوٹرزکا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
مزمل بٹ: اگر ویسپا سکوٹرز کی پاکستان یا دنیا بھر میں بات کی جائے تو، مجھے لگتا ہے کہ اس بات سے بالاتر کہ کیا دوور چل رہا ہے ہمیشہ ہی ان کے مخصوص چاہنے والے موجودہوں گے۔
جیسا کہ ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ مارکیٹ میں مختلف کمپنیز کے نئے سکوٹرز پائے جاتے ہیں جو شباہت میں ویسپا سکوٹرز سے کافی مماثلت رکھتے ہیں۔ کیا ان کے آنے سے آپ کے کاروبار کو کوئی نقصان پہنچا؟
مزمل بٹ: کسی صورت بھی نہیں، نئے پیٹرول یا الیکٹرک سکوٹرز کا موازنہ کسی صورت ویسپا سکوٹرز سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ابھی تک ان سے زیادہ بھروسہ مند اور آزمودہ ہیں۔
مزمل بٹ سے اس مکالمے کے بعد ہمیں موقع ملا کہ ہم جناب شوکت بٹ جو کہ لاہور میں اس ویسپا ریسٹوریشن گیراج کے بانی ہیں سے بھی مل سکیں۔
پاک وہیلز جناب شوکت بٹ سے: کیا آپ ہمیں اپنے متعلق کچھ بتائیں گے؟
شوکت بٹ: میرا نام شوکت حسین بٹ ہے۔میں نے اپنے سفر کاآغازمیکلوڈ روڈسے ایک ویسپا سکوٹرکے معاون مکینک کے طور پراستادمولا بخش کے زیرِسایہ شروع کیا۔اور جب مجھے اس میں مکمل مہارت حاصل ہو گئی تو میں نے تقریباً 45سے50سال پہلے اپنی ورکشاپ کھول لی۔پہلے پہل میں نے مقامی مارکیٹ کے لئے کام کیا،بعد میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کی مدد سے میں نے سکوٹرز باہر انگلینڈ میں بھیجنا شروع کر دئیے، جو کہ انگلینڈ میں ہی رہتا تھا۔اور اسی طرح بعد میں یہ سکوٹردنیا بھر میں جانا شروع ہو گئے۔
آپ کو اس بات کا احساس کب ہوا کہ آپ کے بیٹے کو اس کام میں آپ کا معادن بننا چاہئے؟
شوکت بٹ: میں بوڑھا ہوتا جا رہا تھا اور مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اس کاروبار کو اکیلے سنبھال سکوں، سو میں نے اپنے بیٹے سے اس کاروبار میں مکمل ساتھ دینے کا کہا۔
اس کاروبار کو چلانے میں مزمل نے آپ کی کس حد تک مدد کی؟
شوکت بٹ: مزمل نے اس کاروبار کو نئی جہت دی۔ایک تعلیم یافتہ شخص کے طور پر،وہ دنیا بھر سے آرڈرز لے سکتا ہے اور ہر طرح کے صارفین سے بخوبی بات چیت کر سکتا ہے۔
آپ ماضی کے اور آج کے کاروبار کا موازنہ کس طرح کرتے ہیں؟
شوکت بٹ: یہ کاروبار اب ماضی سے زیادہ منافع بخش ہے۔کچھ لوگوں کے لئے ریسٹوریشن کاروبار اور اور کچھ کے لئے خوش قسمتی ہے، مگر یہ کام جنون سے منسلک ہے۔جناب مزمل اور شوکت بٹ کے مطابق، ریسٹوریشن کاروبار اور جنون دونوں کا ملاپ ہے۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایسے قابل لوگوں کی بہترین حوصلہ افزائی ہونا چاہیے کہ یہ نا صرف پاکستان کی ساکھ بہتر کر رہے ہیں بلکہ دنیا بھر میں تبدیلی لانے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔