گوگل بغیر ڈرائیور گاڑیوں کی مزید تربیت کرے گا
ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیاں بہت جلد آنے والی ہیں۔ یقین نہ آئے تو کار ساز اداروں کی اس ضمن میں دلچسپی اور پھرتیاں ملاحظہ کرلیں۔ گذشتہ دس سالوں میں عالمی شہرت یافتہ کار ساز ادارے اس شعبے میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
انٹرنیٹ سرچ انجن کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والا گوگل بھی بغیر ڈرائیور گاڑیوں کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے۔ کئی سالوں کی طویل محنت کے بعد اب گوگل نے فیصلہ کیا ہے کہ بغیر ڈرائیور کی گاڑیوں کو سڑکوں پر لانے سے قبل ان کی انسانی انداز سے تربیت کی جانی چاہیے۔
گوگل میں بغیر ڈرائیور گاڑیوں کا منصوبہ شروع کرنے والے کرس اُرمسن نے کہا کہ یہ گاڑیاں حقیقی دنیا میں بہت محتاط انداز اپنائے رکھتی ہیں۔ گوگل اس حوالے سے ان گاڑیوں کو انسانوں کی طرح چلانے کی تربیت دے گا جس میں موڑ کاٹنے، دو طرفہ ٹریفک والی سڑکوں پر بغیر کسی خلل کے گاڑی چلنے اور بہتر انداز سے بریک لگانے جیسے اہم عوامل کا سکھایا جانا شامل ہے۔
گوگل کو اس کا خیال تب آیا جب ایک ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران گوگل کی دو مختلف گاڑیاں خود بخود رک گئیں یا انہوں نے اچانک ایک ایسے وقت میں بریک لگایا کہ جب اس کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ایک بار لیکسز نے بریک اس وقت لگایا جب اس کے ساتھ چلنے والی گاڑی انتہائی تیز رفتاری سے گزری جبکہ اس صورتحال میں دوسری گاڑی بغیر رکے چلتی رہی۔ اس کے علاوہ ایک مصروف ٹی-انٹرسیکشن پر گاڑی تقریباً 30 سیکنڈ تک رہی۔ اور پھر جب چلنا شروع ہوئی تو عین وسط میں دوبارہ رک گئی جس کی وجہ فٹ پاتھ کے کنارے پر ایک خاتون کی موجودگی بتائی گئی۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے گوگل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں کی مزید تربیت کرے گا خاص طور پر دوران ڈرائیونگ انسانوں کے بریک لگانے کے انداز اپنی گاڑیوں کو سکھائے گا تاکہ اس سے اندر بیٹھے مسافروں اور آس پاس موجود دیگر گاڑیوں کو مسائل درپیش نہ ہوں۔
یاد رہے کہ گوگل کی بغیر ڈرائیور گاڑیاں 16 مرتبہ حادثات کی زد میں آچکی ہیں جن میں سے 12 مرتبہ گاڑی اچانک بریک لگانے کے باعث پیچھے آنے والی گاڑی سے ٹکرا گئی تھی۔ اس حوالے سے گوگل نے بریکنگ کے نظام میں ممکنہ خرابی کے الزام کو رد کیا ہے۔
گوگل کو امید ہے کہ اس تربیت سے گاڑیوں کے چلنے کا انداز انسانوں کے گاڑی چلانے کے انداز جیسا ہوجائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق آئندہ 5 سے 10 سالوں میں ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیاں عام ہوجائیں گی اور ممکن ہے وہ گوگل کی گاڑیوں میں لگے دیوہیکل ریڈار کے بغیر کام کریں گی۔