ہونڈا کی شکایت پر ہیسکول پاکستان کا جواب

0 216

ہونڈا پاکستان کی جانب سے ایندھن فروخت کرنے والے اداروں کے خلاف شکایت نے مقامی مارکیٹ میں ایک نئے تنازع کو جنم دیا ہے۔ اگر آپ اب تک اس معاملے سے واقف نہیں تو آپ کو بتاتے چلیں کہ ہونڈا نے تیل فراہم کرنے والے اداروں پر تیل میں ملاوٹ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس غیر قانونی فعل سے ان کی گاڑیوں کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ملاوٹ کی وجہ ایندھن کے ریسرچ آکٹین نمبر (رون) میں اضافے کی کوشش بیان کیا گئی ہے۔ خبری ذرائع کے مطابق گاڑیاں بنانے والے ادارے نے اپنے دعوی کے ساتھ تیل کا ایک نمونہ بھی فراہم کیا ہے جس کی جائزہ رپورٹ کے مطابق اس ایندھن میں مینگانیز کی بہت بڑی مقدار ملائی گئی ہے۔ شکایت موصول ہونے کے بعد اوگرا نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔

اس شکایت کے بعد ایندھن فروخت کنندگان کی طرف سے انتہائی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ترجمان نے کہا کہ ان کی مصنوعات وزارت توانائی کے طے شدہ قوانین کے مطابق ہی تیار کی جاتی ہیں۔ اب ایک اور ادارے ہیسکول پاکستان نے بھی اس حوالے سے اپنے موقف پیش کرتے ہوئے حکومت اور ذمہ دار اداروں سے درخواست کی ہے کہ ماحول اور صحت عامہ کی بہتری کے لیے پیٹرول سے متعلق حدود کا ازسر نو جائزہ لے۔

ڈاؤن لوڈ کریں: پاک ویلز موبائل ایپ

انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبیون کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ ہیسکول پیٹرولیم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلیم بٹ نے پیٹرولیم سیکریٹری سکندر سلطان کو خط لکھا ہے جس میں ڈی جی آئل کو گاڑیوں کے ایندھن کی خصوصیات کو دوبارہ طے کرنے اور ایندھن میں مینگانیز ملانے کی حد 24 پی پی ایم (حصہ فی ملین) تک مقرر کرنے کی ہدایت جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ملکی اور غیر ملکی دونوں ہی ریفائنریز کے لیے پیٹرول میں مینگانیز کی سطح کا باقاعدہ سے جائزے کو لازمی قرار دینے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

متعلقہ اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے پر جلد از جلد غور کریں کیوں کہ اس سے ملک کی ماحولیات اور عوام کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کے کارخانوں کو حکومت کے طے کردہ قاعدے اور قوانین پر عمل کرنے کا کہا جاتا ہے نیز اس بات کو یقینی بنانا بھی متعلقہ اداروں ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

یہاں یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ تیل کے مقامی کارخانے ملک میں گاڑیوں کی طلب کا صرف 30 فیصد ایندھن کی ہی فراہم کرتے ہیں جبکہ 72 فیصد گاڑیاں درآمد شدہ ایندھن استعمال کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں ہیسکول کا مطالبہ حق بجانب لگتا ہے اور ذمہ داروں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے اپنی رائے بذریعہ تبصرہ ہم تک پہنچائیں۔

 

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

Join WhatsApp Channel