حکومت پاکستان نے گزشتہ سال 1035(1)/2017 اور 1067(1)/2017 کے نام سے دو ایس آر اوز جاری کیے جس کے بعد نہ صرف گاڑیوں کے شعبے میں زبردست ہنگامہ برپا ہوا بلکہ بیرون ملک سے گاڑیاں درآمد کرنے والوں کی جانب سے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
ایس آر او 1067(1)/2017 کے تحت استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئی ہے جبکہ دوسرے ایس آر او 1035(1)/2017 میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے 356 اشیا پر اضافی ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس کے بعد 1800cc سے زائد انجن والی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی کا ازسرنو تعین کیا گیا۔
مقامی انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق مذکورہ ایس آر اوز کے اجرا کے بعد درآمدی تاجروں نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے انوکھا قدم اٹھایا ہے۔ درآمد کنندگان نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک حکومت گزشتہ سال اکتوبر میں جاری ہونے والا اعلامیہ واپس نہیں لیتی اس وقت تک بندرگاہ سے اپنی درآمد شدہ گاڑیاں نہیں اٹھائیں گے۔ تاجروں کے اس اقدام سے بندرگاہیں تعطل کا شکار ہو رہی ہیں۔
اب کراچی بندرگاہ پر صورت یہ ہے کہ 7 ہزار کے قریب درآمد شدہ گاڑیاں پہلے ہی کلیئرنس کی منتظر ہیں جبکہ مزید اتنی ہی گاڑیوں کی کھیپ جلد بندرگاہ پہنچنے والی ہے۔ گاڑیوں کا اتنا بڑا حجم بندرگاہ کے حکام کے لیے مصیبت بنتا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں درآمدی تاجروں نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ کسٹم حکام نے ابھی تک بندرگاہ تک پہنچ جانے والی گاڑیوں کی ادائیگیوں کا طریقہ کار طے نہیں کیا جس کی وجہ سے تاجر اپنا کارگو کلیئر نہیں کروا سکے ہیں۔
آل پاکستان ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو نئے قوائد و ضوابط نافذ کرنے سے پہلے نیا طریقہ کار سامنے لانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کاہ کہ حکومت کی اس سنگین غلطی کا خمیازہ بندرگاہ پر لنگر انداز جہاز کے اضافی کرائے کی صورت میں درآمد کنندگان کو برداشت کرنا پڑے گا۔
گاڑیوں کے درآمدی تاجروں کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کو نئی پالیسی نافذ کرنے سے پہلے مناسب وقت دینا چاہئے تھا مگر یہاں تو وزارت تجارت و صنعت نے تاجروں کے ساتھ تعاون کیا نہ انہیں کوئی رعایت دی گئی۔
حکام کا دعوی ہے کہ ملک میں درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے اور اگر کسی طریقے سے آئندہ چند ماہ میں گاڑیوں کی درآمد کم ہوجائے تو جون میں ختم ہونے والے رواں مالیاتی سال کے تجارتی خسارے کو کم کیا جا سکے گا۔
آخری بات یہ کہ گاڑیوں کے شعبے پر گہری نظر رکھنے والے مقامی تجزیہ کاروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں پر لگ بھگ 75 کروڑ ڈالر سالانہ خرچ کیے جا رہے ہیں جو کہ بلاشبہ خطیر رقم ہے۔