کِی-لیس لاکنگ سسٹم آپ کو مصیبت میں بھی مبتلا کر سکتا ہے – دیکھیں کیسے؟
اس جدید ٹیکنالوجی کو دنیا کو جتنا حیران کیا، اتنا ہی اس میں خطرہ بھی ہے، جو آپ کو کبھی بھی سخت پریشانی میں مبتلا کر سکتا ہے۔ دنیا جدّت کی طرف بڑھ رہی ہے تاکہ گاڑیوں کو پہلے سے زیادہ محفوظ بنایا جا سکے۔ لیکن یہ تمام کوششیں کسی کام کی بھی ہیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب دینے کی سخت ضروری ہے، بالخصوص جب معاملہ کِی-لیس اِنٹری اور ایگزٹ سسٹم کا ہو۔ پرانے زمانے میں گاڑیوں کو لاک کرنے والا روایتی سسٹم چابیوں پر مشتمل ہوتا تھا، جو نام نہاد جدید بغیر چابی والے ریموٹ بٹن لاک میکانزم سے زیادہ محفوظ لگتا ہے۔ کیا ہم واقعی دن بدن گاڑیوں کی چوری کو آسان بنا رہے ہیں؟ گاڑی کو لاک کرنے کے لیے چابی کا استعمال نہ کرنے کی عیاشی اور سہولت دراصل چوروں کا کام آسان بنار ہی ہے۔
جب آپ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے گاڑی کو لاک کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟
جب آپ ریموٹ بٹن کی مدد سے اپنی کار کو لاک کرتے ہیں تو ایک مخصوص کوڈڈ سگنل ریڈیو لہروں کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ کار میں موجود ریسیوَر یونٹ سے رابطہ کرتا ہے تاکہ دروازے لاک ہو جائیں۔ بنیادی طور پر یہ ریموٹ ایک شارٹ رینج ٹرانس میٹر کا کام کرتا ہے جو کار کے دروازے لاک یا اَن لاک کرنے میں مدد دیتا ہے اور ایک مخصوص رینج پر ہی کام کرتا ہے۔ لیکن ریموٹ کنٹرول سے نکلنے والا سگنل کسی مخصوص ڈیوائس کے ذریعے باآسانی پکڑا بھی جا سکتا ہے اور یہی طریقہ چور بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔ کچھ عرصے میں پاکستان میں گاڑیوں کی چوری کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ گاڑی کے اندر داخل ہونے کا کوئی ثبوت بھی نہ ہو اور اندر پڑا سامان بھی چوری ہو جائے تو آپ سخت مشکل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگوں نے چوریوں کے ایسے واقعات رپورٹ کیے ہیں جن میں ان کی کار سے موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دوسری قیمتی چیزیں چوری ہوئیں جبکہ گاڑی میں کسی کے داخل ہونے کا کوئی ثبوت بھی موجود نہیں۔ تو ہوشیار ہو جائیں اور جان لیں کہ چوری کی ایک جدید تکنیک آجکل کافی مقبول ہو رہی ہے۔ ریموٹ سے نکلنے والا سکیورٹی کوڈ مختلف ہیکنگ ڈیوائسز کے ذریعے ڈی-کوڈ کیا جا سکتا ہے اور یہی طریقہ آجکل چوروں کے زیرِ استعمال ہے۔ ایسے زیادہ تر واقعات پبلک پارکنگ میں پیش آئے ہیں۔ اسی لیے کسی ریستوران، ہوٹل یا شاپنگ سینٹر کی پارکنگ میں گاڑی کو چھوڑتے ہوئے کیا کرنا چاہیے؟
اپنی گاڑی کو ہمیشہ چابی کے ذریعے لاک کریں!
چوری کی اس جدید تکنیک کا حل بالکل سادہ ہے۔ دروازوں کو لاک کرنے کے لیے ہمیشہ چابیوں کا استعمال کریں۔ اس طرح ریڈیو لہروں کی صورت میں کوئی سکیورٹی کوڈ نہیں بنتا کہ جسے کوئی بھی قریبی شخص ڈی کوڈ کر پائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ نکلتے ہوئے گاڑی میں کوئی قیمتی چیز نہ چھوڑیں۔ کئی مواقع ایسے آتے ہیں کہ ہم یہ یقینی بنانے کے لیے ریموٹ بٹن کا استعمال کر تے ہیں کہ گاڑی واقعی لاک ہے۔ لیکن ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جو کام گاڑی کی حفاظت کے لیے کر رہے ہیں، اصل میں وہ اسے غیر محفوظ بنا رہا ہے۔ چابی کے ذریعے گاڑی کو لاک کرنے میں بمشکل کچھ سیکنڈز لگتے ہیں، اس لیے چوری کے اِس طریقے سے ہوشیار رہیں۔ دوسری جانب، اگر گاڑی میں چابی کا کوئی سلسلہ ہی نہ ہو تو کیا کریں، جیسا کہ کئی JDM اور درآمد شدہ گاڑیوں میں ہے؟ تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ تکنیکی حل ہیں، لیکن سب سے آسان ہے کہ ڈرائیور کے دروازے کی طرف اندر سے لاک کریں اور پھر دروازہ بند کریں۔ اس طرح ماسٹر ڈور سے تمام دروازے لاک ہوں گے وہ بھی بغیر کوئی کوڈڈ سگنل بھیجے کہ جو آپ کو بعد میں مہنگا پڑ سکتا ہے۔ کبھی کبھار ہماری سہولت اور آسانی ہمیں مصیبت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یاد رکھیں ہم ٹیکنالوجی کے ہاتھوں میں اتنےمحفوظ نہیں کہ جتنا ہم سمجھتے ہیں!
اپنے خیالات کا اظہار اس لنک پر کیجیے: https://www.facebook.com/groups/PakWheelsOfficial/permalink/2567198536728787/
اپنی تجاویز نیچے تبصروں میں دیجیے۔ مزید ایسی خبروں کے لیے پاک ویلز کے ساتھ رہیں۔