ایف بی آر رپورٹ کے بعد کیا ایم جی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھیں گی؟

0 24,510

پاکستان کی آٹو مارکیٹ میں MG نے کافی تہلکہ مچایا ہے۔ پاکستان کی JW SEZ (پرائیوٹ) لمیٹڈ نے SAIC موٹرز کے ساتھ جوائنٹ وینچر سے پاکستان میں MG موٹرز متعارف کروایا۔ صارفین فروخت کے لیے پیش کی گئی زبردست مصنوعات پر بہت خوش ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جس میں ہمیں MG کے بارے میں کوئی خبر نہ ملے۔ اس سے پہلے ہم نے آپ کو لاہور میں MG کی ایک ڈیلرشپ پر ناراض کسٹمرز کے بارے میں بتایا تھا۔ اور اب قابلِ وصول کسٹمز ڈیوٹی ادائیگی کا معاملہ ہے، جو FBR نے تحقیقات کے بعد نافذ کیا ہے۔ اور اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ MG کی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ لازمی ہو گیا ہے۔

پسِ منظر:

فروری2021 کے وسط میں سوشل میڈیا پر MG کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی تھی، بلکہ خبر کیا یہ ایک تنازع تھا۔ میں نے تفصیل کے ساتھ اس معاملے پر بات کی تھی جو مشتبہ انڈر-انوائسنگ فراڈ پر MG موٹرز کے حوالے سے FBR کی تحقیقات کے بارے میں تھی۔ کیونکہ یہ امپورٹڈ گاڑیاں ہیں اس لیے رجسٹریشن کے وقت ایک BOL/بل آف لیڈنگ/گُڈ ڈکلیئریشن لازمی ہے۔

کئی لوگوں نے بتایا کہ انہیں یہ ڈاکیومنٹ نہیں دیا گیا اور وہ اپنی گاڑیاں ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے پاس رجسٹر نہیں کروا پا رہے۔ لاہور اور فیصل آباد میں ایک ماہ تک MG حکام سے بار بار درخواستوں کے باوجود BOL ان کے حوالے نہیں کیا جا رہا تھا اور اس کے بجائے کمپنی نے انہیں گڈز ڈکلیئریشن فارمز پکڑا دیے۔ لیکن اس میں اعلان کردہ قیمت اور اس پر ادا کیے گئے ٹیکس پر ایک کالا مارکر پھیر دیا گیا تھا۔

 

جب ان میں سے چند افراد اس ڈاکیومنٹ کے ساتھ گئے تو لاہور اور اسلام آباد میں ایکسائز ڈپارٹمنٹ نے ایک مرتبہ پھر گاڑی کو رجسٹر کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ درکار معلومات ظاہر نہیں ہو رہی تھیں اور دستاویزات درست نہیں تھیں۔

تب کی خبروں کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے مورس گیراجز (MG) پاکستان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ تفصیلات کے مطابق FBR نے ‘انڈر-انوائسنگ فراڈ’ کے شبہ کے تحت تحقیقات شروع کیں۔ رپورٹ جو ایک آزاد اخبار میں بھی شائع ہوئی بتایا کہ باقاعدہ تحقیقات کے لیے انڈر-انوائسنگ کا “ثبوت” حکومت کے متعلقہ اداروں کو بھی پیش کیا گیا تھا۔

‏JW-SEZ نے ستمبر 2020ء میں کمرشل فروخت کے لیے MG گاڑیوں کی بڑی مقدار، کمپلیٹلی بلٹ یونٹس/CBUs ملک میں درآمد کرنا شروع کیے۔ جبکہ MG/SAIC کے مقامی پارٹنر JW-SEZنے بھی آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی (ADP) ‏2016-2021 کے تحت گرین فیلڈ اسٹیٹس کے لیے درخواست دی۔ یہ پالیسی کمپنیوں کو اجازت دیتی ہے کہ یہ ٹیسٹ، مارکیٹنگ اور لانچ کے لیے 100 عدد CBU یونٹس درآمد کر سکتی ہیں۔

آٹو پالیسی کے تحت 100 سے زیادہ ‏CBU یونٹس کی درآمد سے سوالات کھڑے ہوئے۔ JW-SEZ نے اس حوالے سے بتایا کہ کمپنی در حقیقت MG HS کے ہر یونٹ پر (50 فیصد سبسڈی کے بجائے) 123.77 فیصد کی مکمل ڈیوٹی ادا کر رہی ہے۔ FBR کسٹم ٹیرف کے مطابق 123.77 فیصد گاڑی کی درست ڈیوٹی ہے، اگر مکمل صورت میں ادا کی جائے۔ اس لیے اگر وہ مکمل ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں تو اپنی مرضی کے جتنے یونٹ چاہیں درآمد کر سکتے ہیں، جو بالکل ٹھیک ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

کسٹمز میں ‏MG HS کی اعلان کردہ قیمت 11,632 ڈالر فی یونٹ پیش کی گئی، البتہ رجسٹریشن کے مسائل اور ساتھ ہی نا مکمل اور سیاہ مارکر سے چھپائی گئی معلومات نے انڈر-انوائسنگ کے شبہات کھڑے کیے۔ FBR نے اس مسئلے پر توجہ کی اور ماڈل کسٹمز کلیکٹوریٹ آف اپریزمنٹ اینڈ فیسی لٹیشن (ایسٹ) کراچی کو JW SEZ (پرائیوٹ لمیٹڈ) کے آڈٹ کا حکم دیا۔

‏MG پاکستان کا جواب:

فروری میں یہ جب مسئلہ پہلی بار سامنے آیا تھا تو میڈیا رپورٹس کا جواب دیتے ہوئے MG پاکستان کے سربراہ جاوید آفریدی نے ٹویٹ کیا تھا کہ “ایسے وقت میں جب نئے ادارے بہترین نئے ماڈلز کہیں کم قیمتوں پر پیش کر رہے ہیں تو بجائے مقابلے کے بعد ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کرنے والی اور بے بنیاد افواہوں کی توقع تھی۔” انہوں نے مزید کہا کہ MG جانتا ہے کہ پاکستان کی آٹو موبائل انڈسٹری میں مسابقت (competition) ایک نامانوس لفظ ہے۔ “ہم پاکستانی صارفین کو کم قیمت پر بڑی اور بہتر گاڑیاں فراہم کرنے کے لیے برابر کے مقابلے کی دعوت دیتے ہیں۔”

آفریدی نے یہ بھی کہا کہ دہائیوں سے پاکستان میں گاڑیاں بنانے والے اداروں کا “گٹھ جوڑ” حد سے زیادہ قیمتوں پر گھٹیا معیار کے اور بیزار کرنے والے ماڈلز فروخت کر کے صارفین کا استحصال کرتا رہا ہے۔

آڈٹ رپورٹ اور آڈٹ:

جب FBR نے اس معاملے کو مزید تحقیقات کی تھیں تب سینکڑوں گاڑیاں کراچی کی بندرگاہ پر کلیئرنس کے لیے موجود تھیں۔ یہ معاملہ ‎JW-SEZ کی جانب سے ایک پٹیشن کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں لے جایا گیا جس پر ہائی کورٹ نے اپنا عبوری فیصلہ دیا اور سیکشن 81 کے تحت تمام MG گاڑیاں چھوڑنے کا حکم دیا۔ یہ سیکشن دو فریقین کے مابین کسی پروڈکٹ کی ویلیو ایشن یعنی قدر پر ہونے والے تنازع کے حوالے سے ہے، جو اس معاملے میں پاکستان کسٹمز اور MG موٹرز پاکستان تھے۔

اس کے علاوہ عدالت نے MG کو حکم دیا کہ وہ ضمانت کے طور پر ایک پے آرڈر جمع کروائے۔ اگر مقدمہ کسٹمز جیت جاتا ہے تو وہ پے آرڈر کو کیش کروا لے گا؛ ورنہ MG کو یہ پے آرڈرز واپس ملیں گے۔ گو کہ عدالت نے بینک گارنٹی کے تحت گاڑیاں ریلیز کرنے کا حکم دیا لیکن آڈٹ پر کار روائی تب بھی جاری تھی۔

اب حال ہی میں مقامی انگریزی اخبار کی ایک خبر کے مطابق آڈٹ کی متعلقہ اتھارٹی نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ مکمل کر لی۔ ڈائریکٹر پوسٹ کلیئرنس ساؤتھ نے JW SEZ (پرائیوٹ) لمیٹڈ، SAIC موٹر انٹرنیشنل کمپنی لمیٹڈ چین اور ساتھ ساتھ انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ، اسلام آباد سے رابطہ کیا تھا۔

تحقیقات کے دوران پایا گیا کہ JW SEZ نے MG گاڑیاں کی پہلی کھیپ مئی 2020 میں درآمد کی تھی، جس میں MG HS کے ایک یونٹ کی اعلان شدہ قیمت 14,000 ڈالرز، MG ZS کی 9,000 ڈالرز جبکہ MG ZS EV کی 22,000 ڈالرز ہے۔ بعد ازاں JW-SEZ نے MG HS فی یونٹ 11,632 جبکہ MG ZS فی یونٹ 9,245 ڈالرز کی یونٹ پر درآمد کیا۔

آڈیٹر نے یہ بھی بتایا کہ JW-SEZ اور SAIC انٹرنیشنل کمپنی لوکل جوائنٹ وینچر آپریشنل معاہدے میں متعلقہ فریق ہیں (SAIC کا حصہ 51 فیصد اور JW-SEZ کا 49 فیصد) اور ٹرانزیکشن ویلیو کسٹمز ایکٹ 1969 کے سیکشن ‎25 (1) (d) کے تحت قبول نہیں کی جا سکتی۔

ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ نے درآمد شدہ گاڑیوں کا حساب/اندازہ لگانے کے لیے مختلف طریقوں کی جانچ کی اور بالآخر “فال بیک طریق کار” کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کسٹمز ایکٹ 1969 کے سیکشن ‎ 25(9) کے تحت۔ اس فارمولے کے تحت MG HS کے ایک یونٹ کی اعلان کردہ ویلیو 11,632 ڈالرز فی یونٹ سے بڑھا کر 13,314 ڈالرز کر دی گئی۔ رپورٹ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھیجی گئی جس نے رضامندی ظاہر کی کہ “فال بیک طریق” کار کا استعمال کیا جائے۔

انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ نے تصدیق کی کہ ان CBUs کی درآمد آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی کے مطابق نہیں ہے اور کمرشل نوعیت کی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ EDB نے آڈیٹر کو اپنے جواب میں ذکر کیا ہے کہ JW-SEZ نے گرین فیلڈ اسٹیٹس کے لیے درخواست دی تھی اور کمپنی کو اس سے نوازا گیا تھا البتہ منظور شدہ بزنس پلان پر دستخط ہونا اور اسے با ضابطہ بنانا باقی تھا۔

حالانکہ MG HS کے 747 یونٹس پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ سیکشن 81 کے تحت کلیئر کر چکی ہے، لیکن MG HS کی اعلان شدہ ویلیو میں اس تبدیلی نے JW-SEZ کو مجبور کیا کہ وہ کسٹمز ڈیوٹی میں فرق ادا کرے جس کے لیے ایک بینک گارنٹی پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرتے وقت لی گئی تھی۔ حساب لگائیں تو JW-SEZ کو نئی ویلیو کے تحت 3.283 ارب روپے ادا کرنا تھے لیکن اس نے 2.204 ارب روپے ادا کیے، یہ 1.240 ارب روپے کی کمی تھی، جو اب FBR پہلے سے موجود بینک ضمانت سے ریکور کرے گا

قیمت میں ممکنہ اضافہ:

کلیئر کیے گئے ‏747 یونٹ (انڈر آڈٹ ایویلیوایشن) کا مطلب ہے کہ کار کمپنی فرق ادا کرے گی اور ان کا بوجھ یہ گاڑیاں خریدنے والے افراد پر نہیں ڈالا جائے کا، یعنی صارفین سے کوئی جواب دہی نہیں ہوگی کیونکہ گاڑیاں انہیں پہلے ہی ڈلیور ہو چکی ہیں۔

البتہ یہ 747 گاڑیاں نومبر 2020 سے فروری 2021 کے دوران درآمد کی گئیں اور اگر اب بھی چند گاڑیاں ایسی ہیں جو ڈلیور نہیں کی گئیں تو MG ڈلیوری کے وقت ان کی قیمتیں بڑھا سکتا ہے خاص طور پر ان صارفین کے لیے کہ جنہوں نے جزوی ادائیگی کی ہے۔

مزید گاڑیاں جو اس وقت ٹرانزٹ میں یا پورٹ پر کلیئرنس کا انتظار کر رہی ہیں ان تک 13,314 ڈالرز کی نئی کسٹم ویلیو کے مطابق رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ MG پاکستان نے اس حوالے سے کوئی با ضابطہ بیان جاری نہیں کیا لیکن ویلیو میں یہ تبدیلی MG HS کی قیمت میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے جو اس وقت 54 لاکھ روپے پر فروخت ہو رہی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ 3,00,000 سے 5,00,000 روپے تک کا اضافہ ممکن ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ MG موٹرز پاکستان نے 19 مارچ کو MG HS کی بکنگ بند کر دی تھی، اس کے باوجود چند MG ڈیلرز تب بھی بکنگ کر رہے تھے جبکہ ڈلیوری کا کوئی وقت نہیں دیا گیا اور نتیجہ اوور بکنگ کی صورت میں نکلا۔

‏MG HS کی ڈلیوری میں تاخیر ہوئی (کئی وجوہات کی بنا پر) اور کئی صارفین اس پر خوش نہیں ہیں اور ایسی خبریں خریداروں کو کمپنی اور اس کے آپریشن کے بارے میں مزید کنفیوز کر سکتی ہیں۔ کمپنی کو کامیابی کے لیے اپنے صارفین کے ساتھ واضح رویہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ واضح نہیں ہے کہ خریدار کو آرڈر کرنے پر کیا ملے گا؛ کیا CBU/امپورٹڈ یونٹ، ایک CKD/مقامی طور پر اسمبل شدہ یونٹ اور CKD کے لیے قیمت میں کمی بیشی تو نہیں۔

‏MG تاخیر پر خفا:

حال ہی میں MG نے متعدد اقدامات کے حوالے سے ایک اور سوشل میڈیا اعلان کیا ہے جو وہ صارفین کو سہولت دینے کے لیے اٹھا رہا ہے،۔

 

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.