پنجاب و سندھ ٹریکٹر اسکیم: غریب کسان عملی اقدامات کے منتظر

3 939

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے مالی سال 2015-16 کا بجٹ منظور کیے ہوئے چار ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔بجٹ پیش کرتے ہوئے ہر حکومت اسےعوام دوست، غربت کے خاتمے، شہریوں کو اضافی سہولیات، بہتر مستقبل، معاشی اصلاحات اور نہ جانے کیا کیا سہانے خواب دکھاتی ہے لیکن جب بات ہو عملی اقدامات کی تو ان حکومتوں کی دلچسپی صرف ذاتی یا سیاسی مفاد سے وابستہ کاموں تک رہتی ہے۔ گزشتہ صوبائی بجٹ میں شامل پنجاب گرین ٹریکٹر اسکیم اور سندھ بے نظیر ٹریکٹر اسکیم بھی موجود حکومتوں کے غیر سنجیدہ رویے کی ایک مثال ہیں۔

پاکستان میں سب سے زیادہ زرعی پیداوار پنجاب اور سندھ میں ہوتی ہے جو ملک کی معاشی صورتحال میں انتہائی کلیدی کردار بھی ادا کرتی ہے۔ اس شعبے میں اصلاحات کے لیے مذکورہ صوبائی حکومتوں نے جولائی 2015 میں پیش کیے گئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 55 ہزار ٹریکٹرز فراہم کرنے میں تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ اس کا مقصد زرعی شعبے سے وابستہ افراد کو زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے مدد فراہم کرنے اور ٹریکٹر بنانے والے مقامی اداروں کو تنزلی سے بچانا تھا۔

اس مقصد کے لیے حکومتِ پنجاب نے 25 ہزار ٹریکٹرز کی مد میں 50 لاکھ روپے مختص کیے تھے جبکہ حکومتِ سندھ کی جانب سے 29 ہزار ٹریکٹرز پر 2 سے 3 لاکھ روپے فی ٹریکٹر رعایت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر دونوں صوبوں میں 54 ہزار ٹریکٹرز رعایتی قیمتوں پر فراہم کیے جانے ہیں جن کی قیمت 7 سے 8 لاکھ روپے ہوگی۔

پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2015-16 کی پہلی سہہ ماہی میں ٹریکٹر کی فروخت میں زبردست کمی آئی ہے۔ پاما کے مطابق گزشتہ سال اسی عرصے میں 9,363 ٹریکٹر فروخت ہوئے جبکہ رواں سال ان کی تعداد 6,745 رہی ہے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ متعلقہ شعبے سے وابستہ افراد کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ یاد رہے کہ بہت سے زمیندار 2010 اور 2011 میں آنے والے سیلاب میں ٹریکٹرز کی بڑی تعداد سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔

tractorsales141516

مزید برآں زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے ٹریکٹرز خریدنے کے لیے مختص قرض کا پروگرام بھی ختم کیا جا چکا ہے جس سے عام کاشتکار کے لیے ٹریکٹر کی خریداری ممکن نہیں رہی۔ اب بینک آف پنجاب اور سندھ بینک کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ان ٹریکٹر اسکیموں کو چلائیں۔ اس کا مقصد غریب کسانوں اور سیاسی کارکنان کا اعتماد حاصل کرنا ہے لیکن بہرحال اس سے صوبوں کی سطح پر معاشی صورتحال بہتر ہونے کی امید کی جاسکتی ہے تاہم یہ اسی صورت ممکن ہے کہ حکومتیں اس معاملے میں مستقبل دلچپسی لیتی رہیں۔

مقامی مارکیٹ میں ٹریکٹرز تیار کرنے والے اداروں میں الغازی اور ملت کا نام سب سے نمایاں ہے۔ ان اداروں نے گزشتہ چار دہائیوں میں ترقی کرتے ہوئے 95 فیصد مارکیٹ تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ اس کے علاوہ جنرل ٹائرز اور بلوچستان ویلز کا شمار ٹریکٹر کے پہیے اور رمز تیار کرنے والوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ادارے اسٹیل کی مقامی مارکیٹ کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور تقریباً 1 لاکھ ٹن لوہا خریدتے ہیں جو پاکستان اسٹیل مل کے تیار کردہ لوہے کا دس فیصد حصہ بنتا ہے۔ تھوڑی سی سنجیدگی دکھا کر ٹریکٹر کے شعبے سے وابستہ چھوٹے اور اسوط درجے کے کاروباری اداروں سے معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں اور اس سے روزگار کے مختلف مواقع بھی پیداہوں گے۔ اس کے علاوہ اضافی کاشتکاری سے حاصل ہونے والا معاشی فائدہ علیحدہ ہے۔ لہٰذا صوبائی حکومتوں کو بھی اس معاملے پر غیر سنجیدہ رویہ ترک کر کے اسکیم کے تحت فی الفور کام شروع کرنا چاہیے۔

ٹریک سیکٹر پر ایک نظر

پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ٹریکر کے شعبے نے بہت ترقی کی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج پاکستان میں تیار ہونے والے ٹریکٹرز کا معیار پڑوسی ملک چین کے ٹریکٹر برانڈز سے زیادہ اچھا ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ٹریکٹر کے شعبے سے وابستہ چند اداروں کے نام یہ ہیں:
ملت (میسی فرگوسن)
فیاٹ نیو ہولینڈ
اوریئنٹ آٹو موٹیو انڈسٹریز
فیکٹو بیلاروس ٹریکٹرز

90 کی دہائی کے وسط میں ٹریکٹر کے شعبے کی فروخت میں زبردست اضافہ ہوا اور تعداد 15 ہزار سے 25 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ 99 میں یہ تعداد 26 ہزار سے زائد ہوگئی۔ 2001 کے بعد ٹریکٹر کے شعبے نے مزید ترقی کی اور سال 2007 میں 54 ہزار سے زائد ٹریکٹر فروخت ہوئے جبکہ سال 2011 میں یہ تعداد 70 ہزار تک جا پہنچی۔ سال 2011 کے اختتام پر حکومت نے ٹریکٹر کے شعبے پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) لاگو کردیا جس سے زبردست تنزلی آئی اور ٹریکٹر کی فروخت 48 ہزار تک جا پہنچی۔ گو کہ بعد ازاں حکومت نے ٹیکس کو کم کرکے 10 فیصد کردیا تاہم قدرتی آفاتے کے باعث زمینداروں کو بھاری مالی نقصان کے باعث ٹریکٹر کی فروخت میں کمی کا سلسلہ نہ رک سکا۔

سال 2012 میں حکومتِ پنجاب اور آئندہ سال 2013 میں حکومتِ سندھ کی جانب سے ٹریکٹر اسکیموں کے باعث کسانوں کو کچھ سہولت میسر آئی تاہم یہ شعبہ اب بھی بیس سال پیچھے ہے اور اسے ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے تمام متعلقہ اداروں اور حکومتوں کو سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

Green-Tractor-Scheme-Punjab

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.