حکومتِ پاکستان نے بالآخر کاروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا نوٹس لے لیا ہے اور کار کمپنیوں سے گاڑیوں کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے اضافے کی وضاحت طلب کی ہے۔ قیمتوں کے تعین میں حکومت کی اچانک دلچسپی نے کمپنیز کو پریشان کر دیا ہے۔
اس ہفتے کے آغاز میں، ہمیں معلوم ہوا کہ مانیٹرنگ کمیٹی نے قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کرنے کے لیے ایک پرائیویٹ فرم کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا ڈالر کی بڑھتی ہوئی شرح اور خام مال کی قیمتیں گاڑیوں کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کی بڑی وجہ ہیں۔ تاہم، پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PAMA) اس معاملے میں حکومت کی مداخلت سے مطمئن نہیں ہے۔
پاما کا کہنا ہے کہ مارکیٹ کار کی قیمتوں کا فیصلہ کرتی ہے، ریاست نہیں۔ پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فری مارکیٹ ہے اور مارکیٹ کا ایک میکنزم ہے۔ پاکستان میں کمیونسٹ ریاست کی طرح مرکزی طور پر منصوبہ بند معیشت نہیں ہے، اور اس لیے حکومت کاروں کی قیمتیں طے نہیں کر سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مینوفیکچررز نے حکومتی استفسار کا جواب دیا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا گیا، لیکن حکومتی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں ماہرانہ رائے لیں گے۔
گاڑیوں کی قیمتوں سے متعلق مسئلے کی نشاندہی کریں گے، پاپام
دوسری جانب پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررز (PAAPAM) کے چیئرمین عبدالرزاق گوہر نے کہا کہ وہ گاڑیوں کی قیمتوں کے تعین کے لیے ٹرمز آف ریفرنس (TOR) پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کاریں مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں۔ لہذا، گاڑیوں کی قیمتوں کو مکمل طور پر ڈالر کے نرخ کے مطابق زیادہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم ڈیٹا چیک کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایکسچینج ریٹ کا کاروں پر کتنا اثر پڑتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو ہم اس کی نشاندہی کریں گے، لیکن ہم حل کی یقین دہانی نہیں کر سکتے۔
دریں اثنا، انجینئرنگ ڈیولپمنٹ (EDB) کا کہنا ہے کہ حکومت نے مختلف پالیسیوں میں کمپنیوں کو بہت سی مراعات دی ہیں۔ اس لیے اسے بڑھتی ہوئی قیمتوں پر سوال اٹھانے کا حق ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں ست متعلقہ صورتحال مزید خراب والی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا حکومت بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتی ہے۔