پیٹرول کی قیمتوں میں فوری اضافہ مسترد
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے عوام کو ایک اچھی خبر سنائی ہے چاہے وہ مختصر مدت کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر نے اعلان کیا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں فوری طور پر اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ان تمام دعووں کی تردید کی جن کی وجہ سے مانگ میں زبردست اضافہ ہوا۔
اب، ہم نہیں جانتے کہ اس کا فوری مطلب کیا ہے کیونکہ حکومت ہر پندرہ دن کے بعد قیمتوں پر نظر ثانی کرتی ہے اور اگلی نظر ثانی چار دن کے بعد ہونا ہے۔
دریں اثناء، وفاقی وزیر نے عوام سے گھبراہٹ میں پیٹرول کی ٹینکیاں بھرنا بند کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔ خیال رہے کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ڈیزل کی قلت کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے پیٹرول اسٹیشنز پر لمبی قطاریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ مزید برآں، قیمتوں میں اضافے کی خبروں کے پیٹرول کمپنیز نے سپلائی روک دی ہے۔
کسان اتحاد نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ ڈیزل کی قلت کے باعث گندم کی فصل متاثر ہو رہی ہے۔ تاہم، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈیزل یا پیٹرول کی کوئی کمی نہیں ہے۔
پیٹرول کی قیمتوں پر سبسڈی ختم کرنا
گزشتہ روز بتایا گیا تھا کہ مفتاح اسماعیل نے پیٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی سفارشات سے اتفاق کیا ہے۔ وزیرخزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف حکام نے پیٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کی بات کی ہے اور وہ ان سے متفق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہم جو سبسڈی دے رہے ہیں، اسے مزید جاری رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔”
وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ مئی اور جون کے لیے پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کی لاگت 96 روپے ہوگی جو حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔
قیمت میں متوقع اضافہ
اطلاعات کے مطابق 1 مارچ 2022 کو ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کو چھوڑ کر پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے قیمتوں میں 119 روپے اضافے کی تجویز دی تھی۔ اتھارٹی نے بھی ڈیزل کی قیمت میں 119 روپے فی لیٹر، کیروسین آئل کی قیمت میں 77.56 روپے فی لیٹر، لائٹ ڈیزل آئل (LDO) کی قیمت میں 77.31 روپے فی لیٹر بشمول 17 فیصدGST اور 19 روپے پیٹرول لیوی کی مد میں اضافے کی تجویز پیش کی تھی۔
تاہم، نئی حکومت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور اقتصادی کے بجائے سیاسی فیصلہ کیا۔ یہ حکومت کے لیے پہلا امتحان تھا اور ایسا لگتا ہے کہ عوامی جذبات اور ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔