وفاقی حکومت نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے گاڑی کی امپورٹ میں ایک بڑی رکاوٹ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وزارت تجارت کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے انٹرنیشنل بینک اکاؤنٹ نمبر (IBAN) کی شرط ختم کر دی ہے۔ اب بیرونِ ملک مقیم پاکستانی گفٹ اسکیم، ٹرانسفر آف ریزیڈنس اور پرسنل بیگیج اسکیم کے تحت گاڑی درآمد کروا سکتے ہیں، IBAN نمبر دیے بغیر۔
کار امپورٹ اور IBAN نمبر:
اس سے پہلے حکومت نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ترسیلِ زر (remittance) سرٹیفکیٹ پر IBAN کا ذکر لازمی کر رکھا تھا۔ اس نئے SRO نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے کار امپورٹ کو مزید مشکل بنا دیا۔ خبروں کے مطابق اس حکم کے بعد امپورٹڈ گاڑیاں مہینوں کے لیے بندرگاہ پر پھنس گئیں۔
بعد ازاں، کسٹمز ڈپارٹمنٹ نے نئے SRO میں اس خامی کا ذکر کیا۔ 10 ستمبر 2020 کو ایک لیٹر میں کسٹمز نے FBR کو لکھا کہ صرف 77 ملک ہی IBAN سسٹم استعمال کر رہے ہیں۔ “جبکہ امریکا، چین، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ سمیت کئی ملک اس سسٹم کو استعمال نہیں کر رہے۔”
کسٹمز نے FBR سے درخواست کی کہ وہ گاڑیوں کی کلیئرنس کے لیے پالیسی گائیڈلائن جاری کرے کہ جہاں ڈیوٹی/ٹیکس ایسے ملک سے آ رہا ہو جو IBAN ممالک میں شامل نہ ہو۔
وزارتِ تجارت کا جواب:
کسٹمز کا جواب دیتے ہوئے 2 نومبر 2020ء کو وزارت تجارت نے کہا کہ پرووسیڈ ریئلائزیشن سرٹیفکیٹ (PRC) ، جس کی تجویز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دی ہے، قابلِ قبول ہوگا۔ “اگر اس سے بھیجنے والے کے نام اور ذاتی بینک اکاؤنٹ کی تصدیق ہوتی ہے۔” وزارت نے کہا۔
نوٹیفکیشن مزید کہتا ہے کہ PRC میں بینک کے نام کا ذکر بھی ہونا چاہیے کہ جہاں سے ترسیلِ زر پاکستان آ رہے ہیں۔
کار امپورٹ میں دلچسپ موڑ:
حالانکہ یہ سمندر پار پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے ایک مسئلہ ہے، لیکن آل پاکستان موٹر ڈیلرشپ ایسوسی ایشن نے وزیر تجارت رزاق داؤد کو ایک لیٹر لکھا تھا۔ یہ معاملہ دلچسپ ہے کیونکہ حکومت نے استعمال شدہ گاڑیوں کی کمرشل امپورٹ پر پابندی لگا رکھی ہے، اس لیے ڈیلرز کو اس سے کوئی مسئلہ ہونا نہیں چاہیے تھا۔
اس لیٹر میں ایسوسی ایشن نے لکھا کہ حکومت نے گفٹ، TR اور بیگیج اسکیم کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کے لیے امپورٹڈ گاڑیوں کی کلیئرنس پر IBAN کی نئی شرط لگا دی ہے۔ “اس شرط نے سمندر پار پاکستانیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے کئی مسئلے پیدا کر دیے ہیں۔”
ایک مرتبہ پھر بتاتے چلیں کہ پاکستان میں کمرشل گاڑیوں کی امپورٹ پر پابندی ہے۔ اس لیے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کار ڈیلرشپ ایسوسی ایشن وزیر تجارت کو خط کیوں لکھ رہی ہے؟ حالانکہ یہ معاملہ خصوصی مشیر زلفی بخاری کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے ماتحت آتا ہے۔
کیا یہ خط ثابت کرتا ہے کہ یہ ڈیلرز سمندر پار پاکستانیوں کے اکاؤنٹس اور ڈاکیومنٹس کا استعمال کرکے گاڑیاں امپورٹ کر رہے ہیں؟
نتیجہ:
حالانکہ سمندر پار پاکستانی تین شرائط کے تحت گاڑیاں امپورٹ کر سکتے ہیں، لیکن IBAN کی شرط نے ان کے لیے مشکل کھڑی کر دی ہے۔ حکومت نے اس مسئلے پر قدم اٹھایا ہے کیونکہ زیادہ تر ملک اس سسٹم کی پیروی نہیں کرتے۔ اس سے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ملک میں استعمال شدہ گاڑی امپورٹ کا پروسس بہت آسان ہو جائے گا۔
مزید نیوز، ویوز اور ریویوز کے لیے پاک ویلز بلاگ پر آتے رہیں