گاڑی اور موٹر سائیکل کے بے کار ٹائرز سے کیا بنایا جاتا ہے؟
استعمال شدہ بے کار ٹائرز کو ڈینگی مچھروں کی افزائش کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں بالخصوص حکومت پنجاب ٹائرز تلف کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اس کا اندازہ مجھے ویل الائنمنٹ اور بیلنسنگ کی ایک دکان پر جا کر ہوا۔ اب سے چند روز قبل میں اس دکان پر جنرل ٹائرز کے تیار کردہ 15 انچ کے یورو اسٹار ٹائرز چھوڑ کر گیا تھا۔ جب دوبارہ ان ٹائرز کو لینے دکان پر پہنچا تو علم ہوا کہ وہ فروخت کردیئے گئے ہیں۔ وجہ پوچھی تو علم ہوا کہ حکومت پنجاب کی خصوصی ٹیمیں پرانے ٹائرز رکھنے والی دکانوں پر چھاپے مار رہی ہیں۔ اگر ان ٹیموں کو کسی دکان پر استعمال شدہ بے کار ٹائرز نظر آجائیں تو وہ نہ صرف اسے اپنی تحویل میں لے لیتی ہیں بلکہ دکان کے مالک کو بھاری جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے۔ لہذا دکان والے اب اپنے صارفین سے پرانے ٹائرز نہیں خریدتے بلکہ انہیں خود تلف کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
بہرحال، جنرل ٹائرز کے اعلی و معیاری ٹائرز سے ہاتھ دھونے کے بعد میں سوچنے لگا کہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے پرانے اور استعمال شدہ بے کار ٹائرز کا کیا جاتا ہے؟
استعمال شدہ ٹائر کو تلف کرنا بہت بڑا درد سر ہے۔ کچھ لوگ انہیں پرانے ٹائر خریدنے والوں ہی کو فروخت کردیتے ہیں۔ یہ کمپنیاں ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے ربڑ کے قالین تیار کرتی ہیں۔ اگر آپ نے کبھی جِمنازیم کی زمین پر غور کیا ہو تو وہاں آپ کو ایسے ہی ربڑ کے قالین نظر آئیں گے۔ ان پر اگر وزن گر جائے تو بس ہلکی سی دھمک سنائی دیتی ہے اور یہی انہیں بچھانے کا مقصد بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پرانے ٹائرز کے ربڑ مختلف کھیلوں میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ بالخصوص ایسے کھیل جو چھت کے نیچے کھیلے جاتے ہیں اور ان کے لیے ہموار زمین درکار ہو۔ علاوہ ازیں انہیں ربڑ کے جوتوں، تعمیراتی سامان اور چند ایک اسٹیشنری آئٹم تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
البتہ مغربی ممالک بشمول جرمنی میں پرانے اور بے کار ٹائرز کو ایندھن بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئلے کی طرح ٹائر میں بھی گرمی پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ٹائر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کسی معدنیات مثلاً کوئلے، کے ساتھ ملا کر برقی پلانٹ، بھٹی اور دیگر کارخانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جرمنی میں 55 فیصد استعمال شدہ ٹائر مختلف کارخانوں میں بطور ایندھن ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی دیکھیں: گاڑی کے ٹائر کیسے تبدیل کریں؟ جانیئے اس ویڈیو میں!
پاکستان میں پرانے ٹائر اینٹیں بنانے والے بھٹی مالکان خریدلیتے ہیں۔ شاید آپ نے دیہی علاقوں میں مخصوص تندور دیکھے ہی ہوں گے کہ جن میں اینٹیں بنائی جاتی ہیں۔ ان تندور میں جلنے والی آگ انہی ربڑ کی مدد سے گرمائی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے قبل، میں نے ایسا بھی سنا کہ چین سے مختلف کارخانے درآمد کر کے بے کار ٹائرز سے ایندھن بنایا جاتا تھا۔ ان کارخانوں میں کیمیائی طریقے سے ٹائر کے اجزا علیحدہ کیے جاتے تھے اور انہیں ایک عمل سے گزارا جاتا تھا۔ اس عمل کے ذریعے کاربن کو ٹھوس حالت میں اور ہائڈرو کاربن کو گیس کی صورت میں جمع کیا جاتا تھا۔ ٹھوس حالت میں موجود کاربن کو فروخت کردیا جاتا تھا جبکہ ہائیڈروکاربن کو گیس سے مائع بنا دیا جاتا تھا اور یوں ڈیزل ہی جیسا ایندھن بن جاتا تھا۔ اسے ‘ٹائر سے نکالا گیا ایندھن (tyre derived fuel – TDF)’ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ طریقہ کار پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کارخانے پر تقریباً 50 لاکھ روپے لاگت آتی تھی۔ بعد ازاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ اب بھی اس طریقہ کار سے ایندھن تیار کیا جارہا ہے یا نہیں۔

