مقامی کار ساز اداروں کے منافع سے حکومت لاعلم ہے: وفاقی وزیر
وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ خان جتوئی نے کہا ہے کہ پاکستا میں گاڑیاں تیار کرنے والے ادارے حکومت کو اپنے منافع سے متعلق معلومات فراہم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی کار ساز ادارے نجی کمپنیوں میں شمار کیے جاتے ہیں اور وہ اس بارے میں حکومتِ پاکستان کو کوئی معلومات فراہم نہیں کرتے کہ انہوں نے کتنا منافع کمایا یا کتنا نقصان برداشت کیا ہے۔
وفاقی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ حکومت اور کار ساز اداروں کے درمیان گاڑیوں کے پرزوں کی تیاری یا درآمد سے متعلق کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ مزید برآں حکومت قانونی طور پر ان اداروں کو بین الاقوامی معیارات اور حفاظتی سہولیات کی حامل گاڑیاں پیش کرنے کا بھی نہیں کہہ سکتی۔ غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے 1987 سے 2003 تک ایک علاقائی اسکیم پر عمل کیا جاتا رہا جسے بعد میں حذف کردیا گیا۔ سال 2004 میں اس کی جگہ ٹیرف پر مبنی نظام (TBS) متعارف کروایا گیا تاکہ گاڑیوں کے شعبے کو عالمی تجارتی انجمن (WTO) کے تحت کاروباری سرمایہ کاری حدود (TRIMs) کے موافق کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: جاپانی وفد کی وزیر خزانہ سے ملاقات؛ نئی آٹو پالیسی پر تبادلہ خیال
یاد رہے کہ اقتصادی ترقیاتی بورڈ (EBD) صرف کارخانوں کا معائنہ کرنے کے بعد گاڑیوں کی تیاری کے اجازت نامے جاری کرتا ہے جبکہ بورڈ کی جانب سے بارہا گزارشات کے باوجود کار ساز ادارے اپنے معیارات سے متعلق بتانے سے گریز کرتے آئے ہیں۔ وفاقی وزیر نے تسلیم کیا کہ اس وقت حکومت کے پاس کوئی اختیار موجود نہیں جس کے تحت وہ کار ساز اداروں کو معیاری گاڑیوں کی تیاری اور ان میں حفاظتی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت جاری کرسکے۔
وفاقی وزیر کے ان انکشافات سے یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پاکستان میں گاڑیں کے شعبے پر جاپانی اداروں کی محض اجارہ داری ہی قائم نہیں بلکہ یہ شعبہ ان اداروں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کے ہاتھ بھی قانونی طور پر بندھے ہوئے ہیں لہٰذا یہ ادارے خود ساختہ معیارات اور من چاہی قیمتوں پر گاڑیاں تیار اور فروخت کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ناقابل یقین لگتی ہے ہونڈا، سوزوکی (Suzuki) اور ٹویوٹا (Toyota) جیسے بڑے ادارے اپنے نفع اور نقصان سے متعلق حکومت کو آگاہ نہیں کرتے۔ باوجودیکہ ان کی گاڑیاں بشمول سوزوکی مہران اور ٹویوٹا کرولا پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہوتی رہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی سستی ترین نئی گاڑی کی قیمت بھی 6 لاکھ 30 ہزار روپے ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ و سابقہ حکومتوں نے محض ٹیکسز کے حصول تک ہی اپنا کردار ادا کیا ہے اور انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عام پاکستان کو کونسی گاڑی کتنی قیمت پر فروخت کی جاتی ہے۔