اوبر اور کریم کا لفظ کسی تعارف کا محتاج نہیں، یہ دنیا کہ زیادہ تر حصوں میں موجود ایک ہی طرز کی رائیڈ ہیلنگ سروس ہیں۔ یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ ان کا شمار ان چند کمپنیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حقیقی طور پر لوگوں کی زندگیاں بدل دیں۔ خواہ وہ ایک مسافر ہو جو ایک سستی اور آرام دہ سواری ڈھونڈ رہا ہے اور چاہے وہ ایک ڈرائیور ہو جو باعزت رزق تلاش کر رہا ہے۔ تاہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو ایک یکسر مختلف کہانی نظر آتی ہے۔ ان رائیڈ ہیلنگ سروس کے کچھ تاریک پہلو بھی ہیں۔ تو اس بات کو زہن میں مدنظر رکھتے ہوئے میں نے جنرل پوائنٹس پر مشتمل ایک فہرست مرتب کی ہے جو کہ میرے زاتی اور لوگوں کے بتائے گئے تجربات پر مبنی ہے جو کہ ان کمپنیوں میں موجود مسائل پر روشنی ڈالے گی جن کی پاکستانیوں کو جاننے کی ضرورت ہے۔ میرا بنیادی مقصد کریم اور اوبر کو حقیقت سے روشناس کروانا ہے تاکہ وہ اپنی پلاننگ کے زریعے ان مسائل کو بہتر طور پر حل کر سکیں۔
- پہلی بات: ڈبل ٹربل
میرے ایک کولیگ نے بتایا کہ ایک دفعہ اس نے ایک سواری آرڈرکی اور اسے واپڈا ٹاون سے مال روڈ لاہور تک جانا تھا۔ جب سفر کا آغاز ہوا تو ڈرائیور نےاس سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس اس وقت انٹرنیٹ کنیکشن موجود ہے؟ جب مسافر نے اس بات کا اقرار کیا تو اس ڈرائیور نے مسافر کو ایک ایپلی کیشن پیرلیل سپیس کے متعلق بتانا شروع کر دیا کہ اس میں کس طرح آپ اپنے فیس بک، کریم اور اوبر کے اکاونٹ سے سائن اپ کر سکتے ہیں۔ پھر ڈرائیور نے اسے کہا کہ آپ اس میں ایک نیا اکاونٹ بنائیں اور اس میں ایک اور رائیڈ کا آرڈر کریں۔ اس طرح سے اس ڈرائیور کو ایک رائیڈ مکمل کرنے پر دو رائیڈز کا معاوضہ مل جائے گا۔ اگرچہ رائیڈ ہیلنگ سروس نے اپنا ریونیو سٹرکچر تبدیل کردیا ہے تاہم پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے ڈرائیور اس طرح کی گھٹیا تکنیک استعمال کر کے کمپنی اور صارفین کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
- ارے۔۔۔معاف کیجیے گا میں آپ کی بقایا رقم ادا کرنا بھول گیا
ہم لوگ کتنی بار یہ بہانہ سن چکے ہیں؟ لیکن ان رائیڈ ہیلنگ سروس نے مجھے ایک بات ضرور سکھائی کہ میں اپنے پاس کھلے پیسے ضرور رکھوں۔ بہرحال یہ ایک اپریل کا گرم دن تھا اور میرے بھائی نے میرے دادا اور دادی کے لیے ایک رائیڈ آرڈر کی۔ ڈرائیور وقت پر پہنچ گیا اور سفر بغیر کسی پریشانی کے ختم ہو گیا لیکن ایپلی کیشن کے مطابق اس سفرکی قیمت 350 روپے تھی لیکن ڈرائیور نے میرے دادا دادی سے 400 روپے وصول کیے کیونکہ وہ اس سسٹم سے ناواقف تھے۔ میں نے اس کیپٹن کو کال کی اور اس کی شکایت لگانے کی دھمکی دی تو اس نے کہا کہ وہ اس بوڑھے جوڑے کو 50 روپے بقایا واپس کرنا بھول گیا تھا۔
- کیا باہر گرمی ہے؟ نہیں میرا نہیں خیال
ڈرائیور کے رویے کے علاوہ بھی اس رائیڈ ہیلنگ سروس میں ڈرائیوروں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بہت سے مسئلے سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں عموماً موسم گرما شدید ہوتا ہے اور اگر حالیہ گرمی کی لہر کو مدنظر رکھا جائے تو میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی اس بات کو قبول کرے گا کہ اے سی کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے۔ یہی واقعہ میرے ساتھ دو ہفتے پہلے پیش آیا۔ جب ایک دوپہر میں میرے ڈرائیور نے کہا کہ وہ اے سی آن نہیں کر سکتا کیونکہ یہ کمپنی پالیسی میں شامل نہیں ہے۔ اب آپ میری اصلاح کریں اگر میں غلط کہہ رہا ہوں کہ ان رائیڈ ہیلنگ سروس کا مقصد صارفین اور کار مالکان کو ایک سادہ حل فراہم کرنا ہے نہ کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے لڑوانا مقصود ہے۔
بہرحال میں نے اس صورتحال کی ای میل رائیڈ ہیلنگ سروس کو کی اور ان کا جواب اوپر دیا گیا ہے۔ یہ صرف ڈرائیوروں میں اخلاقیات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے جو کچھ ایندھن کی بچت کی خاطر مسافروں کو مسائل کا شکار بناتے ہیں۔
- میں آپ سے صرف دوستی کرنا چاہتا ہوں
آخری لیکن انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ان رائیڈ ہیلنگ سروس میں ہراساں کرنے کے کیس بھی موجود ہیں۔ پاکستان ہی صرف وہ واحد ملک نہیں جو اس لعنت سے دوچار ہے بلکہ اس رویہ کو عالمی سطح پر میڈیا پر بھی اٹھایا گیا۔ اس قسم کے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن میں ڈرائیور مسافروں کو سوشل میڈیا اور ان کے زاتی فون پر ہراساں کرتے ہیں۔ کچھ کیپٹن لیٹ آتے ہیں یا رائیڈ کینسل کر دیتے ہیں جبکہ کئی بار جب ایک لڑکی رائیڈ کینسل کرے یا اپنا سفر مکمل کرے تو اسے ڈرائیوروں کی جانب سے ہراساں کرنے والے میسج موصول ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
میں اس قسم کے کیسز کے متعلق مزید بات بھی کر سکتا ہوں مگر میرے بات کرنے سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوجائے گا۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ میرا مقصد کسی بھی کمپنی کا تشخص خراب کرنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد ان مسائل پر روشنی ڈالنا ہے تا کہ ان کا حل تلاش کیا جاسکے۔ ان رائیڈ ہیلنگ سروس نے ٹرانسپورٹ کے بارے میں ہمارے سوچنے کا انداز بدل دیا ہے اور سب سے بڑھ کر انہوں نے سینکڑوں پاکستانیوں کو کام کی تلاش میں مدد فراہم کی ہے۔ میرا زاتی ماننا ہے کہ باقاعدہ اخلاقیات کی ٹریننگ اور کمپلینٹ سسٹم کو بہت تیز اور شفاف بنا کر اس سروس کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ مسافروں کی سہولت اور حفاظت ان رائیڈ ہیلنگ سروس فراہم کرنے والوں کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔ صرف اس طرح سے یہ عوام کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں وگرنہ دوسری صورت میں صارفین ان سے گریز ہی کریں گے۔