بگ تھری کی اجارہ داری؛ نئے اداروں کو خصوصی مراعات نہیں دی جائیں گی!
بہتر سیاسی و معاشی صورتحال کے بعد بہت سے ادارے پاکستان کو نئی کاروباری مارکیٹ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں خدمات فراہم کرنے والے ادارے شامل ہیں وہیں معروف کار ساز ادارے بھی پاک سر زمین پر قدم جمانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔جاپانی کار ساز ادارے نسان (ڈاٹسن ) کے علاوہ ووکس ویگن کے ساتھ بھی سرکاری اہلکاروں کی ملاقات ہوچکی ہے۔ اس ضمن میں مزید پیش رفت نظر نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی نئی آٹو پالیسی کے اعلان میں غیر معمولی تاخیر بتائی جارہی ہے۔ ایک بات آٹو پالیسی کا اعلان کردیا جائے تو صورتحال واضح ہوگی کہ کونسا کار ساز ادارہ یہاں آئے گا اور کونسا رخصت سفر باندھے گا۔
گذشتہ دنوں حکومت کی جانب سے عندیہ دیا گیا تھا کہ وہ یورپی کار ساز اداروں مثلاً ووکس ویگن اور اوڈی سے پاکستان میں کاروباری مواقع پر بات کر رہی ہے۔ تاہم اب یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑتا ہوا نظر آرہا ہے جس کے پس پردہ موجودہ جاپانی کار ساز اداروں کی زبردست لابنگ کار فرما ہے۔پاکستان کی نئی آٹو پالیسی سے متعلق موصول ہونے والی تازہ خبروں سے نئے کار ساز اداروں کو خصوصی مراعات دیے جانے کے امکانات معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں نسان کی ممکنہ آمد: ڈاٹسن GO اور GO+ پیش کی جاسکتی ہیں
خصوصی مراعات کیا ہیں؟
پاکستان میں تین جاپانی کارساز ادارے طویل عرصے سے کام کر رہے ہیں۔ یہاں ان کی بنیادیں بہت مضبوط ہوچکی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ لوگ ان کی گاڑیوں سے مانوس ہیں بلکہ پرزوں (اسپئر پارٹس) کی آسان دستیابی سے بھی مطمئن نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس کوئی بھی نیا کار ساز ادارہ جب پاکستان میں قدم رکھے گا تو اسے یہ تمام سہولیات دستیاب نہیں ہوں گی۔ نئے کار ساز اداروں کو ملک میں قدم جمانے کے لیے حکومتیں خصوصی مراعات فراہم کرتی ہیں جن میں بیرونی ممالک سے پرزے منگوانے پر ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ یا رعایت بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ خصوصی مراعات محدود وقت تک فراہم کی جاتی ہیں تاکہ نئے کار ساز ادارے ملک کی تمام مارکیٹ تک رسائی حاصل کرلیں۔
ان خصوصی مراعات کے بغیر کوئی بھی کار ساز ادارہ پاکستان آنے اور یہاں گاڑیاں تیار کر کے فروخت کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔ معروف انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق نئے غیر ملکی کار ساز اداروں کو خصوصی مراعات دیئے جانے کا امکان رد کیا جاچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی آٹو پالیسی کا فوری اعلان ناگزیر ہے: میاں ہمایوں پرویز
پچھلے سات ماہ کے دوران مجوزہ آٹو پالیسی کو 2 بار اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے رکھا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی بھی حتمی فیصلہ نہیں ہوپایا۔ اس بار وزیر برائے صنعت و پیداوار نے جب اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے آٹوپالیسی رکھی تو اس میں نئے اور موجود کار ساز اداروں کے لیے ٹیکس کی مد میں یکساں رعایت شامل تھیں۔ تاہم وہاں موجود پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اسے منظور کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ اس ملاقات میں موجود نہیں تھے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق صنعت و پیداوار کے وفاقی وزیر کی جانب سے پیش کردہ مسودہ اور کمیٹی کی طرف سے متفقہ پالیسی میں اختلافات موجود تھے اور اسی وجہ سے خواجہ آصف اس کی منظوری میں حائل ہوئے۔حکوت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کا موقف ہے کہ موجودہ کار ساز اداروں کو مراعات دینا بے بنیاد ہے کیوں کہ انہیں دو دہائیوں سے یہاں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ نے ایک ماہ میں آٹو پالیسی منظور کیے جانے کی نوید سنائی تھی۔