نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟
“تصور کیجیے کہ اگر پاکستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑی چلانے کی قانونی اجازت مل جائے تو کیا ہوگا؟ آپ 10 لاکھ روپے میں ٹویوٹا مارک X لینا چاہیں یا پھر سوزوکی کلٹس؟ فیصلہ آپ کا۔”
پاکستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں
مجھے بخوبی علم ہے کہ اکثر لوگ یہی تبصرہ کریں گے کہ ہمیں صرف قانونی طریقہ کار ہی کو اختیار کرنا چاہیے لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ اگر آج نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے کا موقع مل جائے تو اکثریت اس موقع کو ہر گز نہیں گنوائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی گاڑیاں پاکستان میں داخل کیسے ہوتی ہیں؟ لوگ انہیں باآسانی کس طرح استعمال میں لے آتے ہیں؟ یہ اور اس جیسے سوالات ہر عام آدمی کے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں۔
اس معاملہ کو بالکل شروع سے دیکھتے ہیں۔ افغانستان سے ملحقہ بلوچستان کی سرحد ایسی گاڑیوں کی آمد کا سب سے مقبول راستہ ہے۔ حتی کہ اس راستے سے لائی جانے والی گاڑیوں کو “نان کسٹم پیڈ سوات” اور “نان کسٹم پیڈ چمن” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان گاڑیوں کی اکثریت جاپان یا پھر دبئی سے آتی ہے۔
ڈاؤن لوڈ کریں: پاک ویلز موبائل ایپ
نان کسٹم پیڈ کی اصطلاح ہی یہ بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ گاڑیاں غیر قانونی راستے یعنی اسمگلنگ کے ذریعے آتی ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کی درآمدی ڈیوٹی وغیرہ ادا نہیں کی گئی ہوتی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان گاڑیوں کو ایک ایک کر کے لایا جاتا ہوگا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان گاڑیوں کو حصوں میں لایا جاتا ہے۔ حصوں سے مراد 100 ٹکڑے نہیں بلکہ عام طور انہیں دو ٹکڑوں میں لایا جاتا ہے اور پھر مقامی مکینک انہیں جوڑ کر چلتی پھرتی گاڑی کی شکل دیتے ہیں۔ چمن کو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا سب سے بڑا مرکز مانا جاتا ہے۔
گاڑیوں کی خریدوفروخت سے وابستہ کئی ڈیلر اس کاروبار میں ملوث ہیں اور آپ کی من پسند گاڑی گھر کی دہلیز تک پہنچا سکتے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ ہر ایک کو ایک روٹی کا کچھ حصہ دے کر خاموش کروادیا جاتا ہے اور یوں ہر کام نکل جاتا ہے۔ اس مد میں ہر گاڑی پر خاص رقم رشوت کے طور پر دی جاتی ہے بصورت دیگر آپ ملک کی سرحد یا پھر شہر میں کسی ٹول کے دوسری طرف نہیں جاسکتے۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن
غیر قانونی رستوں سے آنے والی یہ گاڑیاں فروخت سے پہلے رجسٹر نہیں کروائی جاتیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی گاڑیاں زیادہ تر ان لوگوں کے استعمال میں ہیں جو بااثر کاروباری شخصیت، سیاستدان، عسکری اداروں کے افسران، محکمہ کسٹم کے عہدیداران یا پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ لوگ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلا سکتے ہیں تو پھر آپ کیوں نہیں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اگر آپ یہ حرکت کریں گے تو فوراً دھر لیے جائیں گے مگر ان لوگوں کی گاڑیاں روکنے کی کوئی بھی ہمت نہیں رکھتا۔ نان کسٹم پیڈ میں اکثر SUVs اور دیگر مہنگی گاڑیاں ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے پولیس والوں کو ایسی گاڑیاں روکتے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ یہ با اثر اشخاص ایکسائز ڈیپارٹمنٹ میں اچھی جان پہچان رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے نان کسٹم پیڈ گاڑیاں رجسٹر کروانا بھی بہت آسان ثابت ہوتا ہے۔
یہ گاڑیاں سڑکوں پر کیوں نظر آتی ہیں؟ اس کا جواب میں آپ کو بتاتا ہوں۔ نان کسٹم پیڈ گاڑی چلانے کی زیادہ سے زیادہ سزا گاڑی کو تحویل میں لے لینا ہے۔ اگر آپ کو 60 لاکھ کی ٹویوٹا لینڈ کروزر 20 لاکھ میں مل جائے اور آپ اسے سال دو سال سے چلا رہے ہوں تو پھر کسی بات کا ڈر لگتا ہے؟ بالکل نہیں۔ یہی معاملہ بڑے ٹھیکیداروں اور دولت مند کاروباری شخصیات کے ساتھ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہیں نان کسٹم پیڈ گاڑی کے ساتھ پکڑ بھی لیا تو زیادہ سے زیادہ گاڑی ہی بند ہوگی اور خود تو وہ آرام سے گھر پہنچ جائیں گے۔ سونے پہ سہاگہ پیسے اور تعلقات کا اثر ہے جس سے پکڑی جانے والی گاڑی کو باآسانی چھڑوا لیا جاتا ہے اور وہ نئے رنگ اور نئی نمبر پلیٹ کے ساتھ پھر سے کسی کی شان و شوکت بڑھانے لگتی ہے۔ یہ تمام باتیں اتنے یقین سے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ان تمام کاموں کو خود ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
پاکستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی فروخت کی وجوہات
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے کسی بھی ملک میں غیر قانونی راستے سے داخل ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کی ایک بنیادی وجہ درآمدی ڈیوٹی ہے۔ پرتعیش گاڑیوں کو قانونی طریقہ کار سے درآمد کیا جائے تو کسٹم ڈیوٹی کی مد میں بھاری رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں لوگ چمن یا دیگر جگہوں سے کل قیمت کا ایک تہائی ادا کر کے یہ گاڑیاں لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑی کی عمر بھی ایک وجہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ مقامی کار ساز ادارے مہنگی قیمت میں بے کار گاڑیاں فروخت کر رہے ہیں اور یوں بیرون ملک کی گاڑیوں کو زیادہ ترجیح حاصل ہورہی ہے۔
خلاصہ
اس مسئلے پر قابو پانے کا بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ حکومت کسٹم ڈیوٹی کو کم کرے اور مقامی اداروں کو معیاری گاڑیوں کی تیاری پر مجبور کرے تاکہ لوگ نان کسٹم گاڑیوں یا بیرون ملک سے گاڑیوں کی درآمد کرنے کے بجائے ملک میں تیار شدہ گاڑیوں کو ترجیح دیں گے۔ امنسٹی اسکیمز ایسی گاڑیوں میں کمی لانے کا کارگر طریقہ نہیں بلکہ لوگ ان گاڑیوں کو خرید کر ایسی اسکیمز کا انتظار کرتے رہیں گے کہ کب حکومت اجازت دے اور وہ اصل سے کم ڈیوٹی ادا کر کے اپنی گاڑیوں کو قانونی دائرہ میں لے آئیں۔ اگر آپ پاکستان کے ایک عام شہری ہیں تو ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ایسی اسکیمز سے آپ کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا کیوں کہ دراصل یہ اسکیمز حکومت کی جانب سے چنیدہ افراد کو نوازنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں، بس!
پاکستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے بارے میں اپنی رائے سے ہمیں ضرور آگاہ کریں۔