مقامی آٹومیکرز اور حکومتِ پاکستان کار ڈیلرز کی جانب سے پریمیم چارجنگ یا ‘اون منی’ کی حوصلہ شکنی کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ وہ کار کی بکنگ اور ڈیلرشپ کے کام کرنے کے انداز پر صارف دوست آٹو پالیسیوں کو فروغ دینا بھی چاہ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں 1,00,000 سے 2,00,000 روپے ٹرانسفر ٹیکس لگا کر نئی گاڑیوں کی پہلے چھ ماہ میں ری سیل یعنی دوبارہ فروخت محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس وقت ملک بھر میں صوبائی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹس کی جانب سے معمولی ٹرانسفر فیس لی جاتی ہے اور نئی گاڑیوں کی ری سیل پر کوئی پابندی نہیں ہے جو جلد ڈلیوری کے نام پر منافع خوری میں اضافہ کر رہی ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر سرمایہ کار اور ڈیلرز کو نئی گاڑیوں کی فروخت پر پریمیم چارج کرنے یا ‘اون منی’ لینے کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ پاکستان میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی یعنی طلب اور رسد میں فرق ہے اور چند کار ڈیلرز نئی گاڑیوں کی خریداری پر جلد ڈلیوری کے لیے صارفین سے اضافی رقم اینٹھتے ہیں۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق نئی گاڑیوں کی ری سیل کے معاملے پر پابندی لگانے کے معاملے پر وزارت صنعت و پیداوار (MoIP) اور اوریجنل ایکوئپمنٹ مینوفیکچررز (OEMs) کے درمیان تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار عبد الرزاق داؤد اور تین سرفہرست مقامی آٹومیکرز – ہونڈا اٹلس کارز، ٹویوٹا انڈس موٹر کمپنی (IMC) اور پاک سوزوکی- کے نمائندوں نے شرکت کی۔ آٹو انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنے کے لیے MoIP کے ذیلی ادارے انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB) کے اعلیٰ عہدیداروں بھی اس موقع پر موجود تھے۔
اجلاس کے دوران OEMs نے نئی کاروں کی ری سیل پر پابندی لگانے کی تجویز دی۔ تجویز پر غور کرتے ہوئے MoIP نئی گاڑیوں کی ری سیل کے حوالے سے اصلاحات کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) سے رابطہ کر سکتا ہے۔
آٹومیکرز نے مبینہ طور پر گاڑیوں کی فروخت کے حوالے سے اپنے خدشات پیش کیے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ 1700cc اور اس سے بڑے انجن رکھنے والی گاڑیوں پر 10 فیصد FED کا خاتمہ کرے۔ اگر پریمیم منی چارج کرنے پر کوئی کار ڈیلر بلیک لسٹ ہو جائے تو انہوں نے اس کے لیے قانونی تحفظ بھی طلب کیا۔
ڈیلرز کی ‘بلیک لسٹنگ’
وفاقی حکومت نے نئی گاڑیوں کی خریداری پر ‘اون منی’ یا کار پریمیم کے غیر قانونی کاروبار کے خاتمے کے لیے پہلے ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت نئی گاڑیوں کی جلد ڈلیوری پر ‘اون منی’ طلب کرنے والے متعدد کار ڈیلرز کو بلیک لسٹ کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فیصلہ وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت و پیداوار عبد الرزاق داؤد کی زیر صدارت اجلاس میں ہوا۔ EDB کے عہدیدار بھی اس موقع پر موجود تھے۔
مقامی کار میکرز کو اس یقین دہانی کے تحریری “حلفیہ بیان” فراہم کرنے کو کہا گیا کہ وہ غیر قانونی رقم لینے والے اپنے ڈیلرز کے خلاف قدم اٹھائیں گے۔ ‘اون منی’ عموماً نئی گاڑیوں پر صارفین سے اور رسید سے جدا رقم کی صورت میں لی جاتی ہے۔ صارفین کو نئی گاڑی خریدتے ہوئے جلد ڈلیوری کے لیے واقعتاً مجبور کیا جاتا ہے۔ نئے ریگولیٹری فریم ورک کا چند آٹو ڈیلرز کے اس غیر قانونی کاروبار پر نظر رکھنا متوقع ہے۔
2 اپریل 2019ء کو ایک ابتدائی کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے اس عمل پر پابندی لگانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ وزیر قانون اور وزیر خزانہ پر مشتمل اس کمیٹی کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مختلف اقدامات کے ذریعے نئی گاڑیوں کی فروخت کو ضابطے میں لائے، جس میں ڈیلرز اور بنانے والوں پر جرمانے بھی شامل تھے۔
مقامی آٹومیکرز کا کہنا ہے کہ وہ اس حرکت میں شامل نہیں
گو کہ بڑے پیمانے پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کار میکرز نئی گاڑیوں کے خریداروں سے ‘اون منی’ لینے میں ڈیلرز کی پشت پناہی کرتے ہیں، لیکن وہ بارہا اس عمل میں شریک ہونے سے انکار کر چکے ہیں۔ کار ڈیلرز کا بارہا کہنا ہوتا ہے کہ نئی گاڑیوں کی طلب اور رسد میں بڑا فرق ہونے کی وجہ سے وہ پریمیم لینے پر مجبور ہیں۔
20 مارچ 2019ء کو وفاقی کابینہ نے ‘اون منی’ کو روکنے کے لیے ہدایات جاری کیں اور اسے گاڑیاں خریدنے والوں کا استحصال قرار دیا۔
دریں اثناء، غیر قانونی ‘اون منی’ کا مسئلہ حکومتی اداروں کے درمیان اختیارات پر اختلاف کی وجہ سے بدستور موجود ہے۔ وزارت صنعت نے پہلے کہا تھا کہ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کو مقامی کار اسمبلرز کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ قیمتیں بڑھانے کے لیے اجارہ داری کے معاملات اس کے ماتحت آتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت نے آٹو ڈیولپمنٹ پالیسی 2016-21ء متعارف کروائی تھی تاکہ آٹو مارکیٹ میں مسابقت یعنی مقابلے کی فضاء تخلیق کی جا سکے۔ پالیسی نئے کار مینوفیکچررز کو پاکستانی آٹو انڈسٹری میں داخل ہونے پر ٹیکس میں رعایت دیتی ہے۔
موجودہ پالیسیوں کے تحت نئی کاروں کے خریداروں سے کل لاگت کے 50 فیصد سے زیادہ چارج نہیں کیا جا سکتا۔ مقامی آٹو اسمبلرز ایڈوانس یعنی پیشگی ادائیگی لینے کے بعد نئی گاڑی دو مہینوں میں فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ تاخیر کی صورت میں کار میکرز کو 2 فیصد جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔