ٹیسلا پر ڈیوٹی کا معاملہ – کسٹم حکام نے ایف بی آر سے مدد مانگ لی

0 256

پاک ویلز نے رواں سال ماہ اکتوبر میں اپنے قارئین کو بتایا تھا کہ پہلی بار کسی فرد نے پاکستان میں 2016 ٹیسلا S70 درآمد کی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے ٹیسلا گاڑیوں منگوانے کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی تھی تاکہ ہمارے قارئین یہ فیصلہ کرسکیں کہ ایسی گاڑیاں پاکستانی سڑکوں پر چلانے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ اب اس حوالے سے ایک اور معاملے نے سر اٹھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹیسلا کی برقی سواری کو گاڑیوں کے کس زمرے میں شمار کیا جانا چاہیے۔ چونکہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے اب تک برقی گاڑیوں کی درآمد پر کسی قسم کی ڈیوٹی عائد نہیں اس لیے کسٹم حکام شدید الجھن کا شکار ہیں اور اب انہوں نے ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریوینیو) سے درخواست کی ہے کہ وہ اس الجھن کو سلجھانے میں ان کی مدد کریں۔

پورٹ سے گاڑی کلیئر کرواتے ہوئے ٹیسلا درآمد کنندہ نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ یہ گاڑی ماحول دوست ہے اس لیے اسے’ہائبرڈ برقی گاڑیوں‘ کے زمرے میں شمار کیا جانا چاہیے اور وہ تمام رعایات بھی فراہم کی جانے چاہئیں جو ہائبرڈ برقی گاڑیوں کو حاصل ہیں۔ درآمدکنندہ نے مزید کہا کہ 12 جون 2013ء کو جاری ہونے والے ایس آر او 499(1)/2013 کے تحت وفاقی حکومت نے ہائبرڈ برقی گاڑیوں (HEVs) کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس معاف کر رکھی ہے جو کہ پی سی ٹی کوڈ 87.03 کے زمرے میں آتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند ابلاغی اداروں نے پی سی ٹی کوڈ کو 7803 بتایا ہے جو کہ غلط ہے۔ اصل کوڈ یعنی 87.03 کی نقل ذیل میں دیکھی جاسکتی ہے۔

sro499-2013

چونکہ برقی گاڑیوں کے لیے علیحدہ زمرہ موجود نہیں اس لیے انہیں پی سی ٹی کوڈ 87.03 کے تحت ہی شمار کیا جائے گا۔ اس کوڈ کے مطابق درآمد شدہ گاڑی پر 50 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 17 فیصد سیلز ٹیکس، 9 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس اور 1 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد ہوتی ہے۔ مزید گہرائی میں جانے سے پہلے یہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ درآمد شدہ گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی جو کہ تقریباً 10 فیصد ہی بھی اس پر لاگو نہیں ہوتی کیوں کہ برقی گاڑی کو CC (کیوبک سینٹی میٹر / انجن کی قوت) سے نہیں شمار کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود کسٹم حکام کی جانب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی مد میں 38,67,811 روپے وصول کرنے کے علاوہ مجموعی ڈیوٹی و ٹیکس کے نام پر 66,16,113 روپے وصول کیے۔ یہ سراسر زیادتی ہے کیوں کہ کسٹم حکام کو کوئی بھی قانون بغیر انجن والی برقی گاڑیوں پر ایف ای ڈی وصول کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ پاکستان میں کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کا تمام تر حساب کتاب CC کے اعتبار سے کیا جاتا ہے اور چونکہ برقی گاڑی انجن کو CC میں شمار نہیں کیا جاسکتا اس لیے ڈیوٹی بھی نہیں بنتی۔

اس معاملے پر مزید پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ کسٹم حکام نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان کی مدد کرے۔ ایف بی آر کو بھیجے گئے خط میں سوال کیا گیا ہے کہ برقی گاڑیوں کو ایس آر او 499(1)/2013 کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں؟ یاد رہے کہ یہ وہی ایس آر او ہے جس کے تحت ہائبرڈ برقی گاڑیوں کو ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں رعایت حاصل ہے۔

ایف بی آر کے افسران نے اس معاملے پر غور و خوص شروع کردیا ہے اور جلد ہی اپنی رائے فراہم کریں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور اس کے بارے میں ضروری قانون سازی کرے تاکہ مستقبل میں برقی گاڑیوں کی درآمد کے معاملات کسی الجھن کا شکار نہ ہوں۔

پاکستان میں ٹیسلا درآمد کرنے والے شخص کا نام میاں احمد عرفان ہے جو لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔ اس گاڑی کا رجسٹریشن نمبر BP16 جبکہ چیسز نمبر 5Y5YJSB7E21GF137160 ہے۔

tesla-import-details

آخر میں یہ خبر بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ چند روز قبل موسمی تبدیلی کے معاملے پر قائم قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ہائبرڈ گاڑیوں کو ہر قسم کے ٹیکس سے استثنی دیا جائے۔ اس کا مقصد ملک میں ماحول دوست گاڑیوں کو فروغ دینا اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر قابو پانا ہے۔

اس خبر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مستقبل قریب ممیں حکومت کی جانب سے ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس ختم کیا جاسکتا ہے اور یوں برقی گاڑیوں منگوانے کا عمل بھی بغیر کسی ٹیکس کی ادائیگی کے ہوپائے گا۔ اسی طرح اگر آپ کو یاد ہو تو پاکستان میں شائفنگ D101 چینی برقی گاڑیوں کے بارے میں ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئیں تھیں کہ انہیں توقعات کے برخلاف بھاری بھرکم ٹیکس ادا کرنا پڑا تھا۔ اس حوالے سے حکومتی وضاحت مستقبل میں برقی گاڑیاں درآمد کرنے کے خواہشمندوں کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

اس لیے اب انتظار کیجیے اور دیکھیے کہ حکومت کب اس حوالے سے بامعنی قدم اٹھاتی ہے۔ تب تک بذریعہ تبصرہ ہمیں اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہیے گا۔

اس معاملے کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہم اپنے ساتھی بلاگر فضل وہاب کے شکر گزار ہیں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.