گاڑی چلانا محض شوق یا ضرورت پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک یہ بھاری ذمہ داری بھی ہے۔ جب آپ موٹر سائیکل کا ہینڈل یا گاڑی کا اسٹیئرنگ تھامے محو سفر ہوتے ہیں تو یہ آپ کی ، جی ہاں آپ کی ہی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ تمام سفر کے دوران آپ اور آپ کے آس پاس موجود ہر جاندار اور بے جان چیز کسی بھی نقصان سے محفوظ رہے۔ بدقسمتی سے آج جب ہم سڑک پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ڈرائیور صاحبان کو اس ذمہ داری کا بالکل احساس نہیں۔ بالخصوص عوامی ٹرانسپورٹ مثلاً بس، کوچ، رکشا حتی کہ چنگچی چلانے والے بھی انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس وقت اور بھی زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ جب اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد اخلاقیات اور ٹریفک قوانین کو اپنی مہنگی گاڑیوں کے نیچے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ رہی بات موٹر سائیکل سواروں کی توکوئی تنگ گلی ہو یا عام شاہراہ، یہ دونوں ہی کو موت کا کنواں سمجھ کرکرتب دکھاتے ہیں۔
ڈرائیور صاحبان کی ان غیر ذمہ داریوں کا خمیازہ اکثر اوقات خود ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ کسی بھی قسم کا حادثہ رونما ہونے کی صورت میں سب سے پہلے ان کی اپنی ہی گاڑی کو نقصان پہنچتا ہے اور اگر خدانخواستہ حادثہ سنگین نوعیت کا ہو تو اس سے ڈرائیور سمیت گاڑی میں سوار تمام ہی مسافروں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ دوران ڈرائیونگ جن عادات کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی سمجھے بغیر دہرایا جاتا ہے ان میں سے ایک موبائل فون کا استعمال بھی ہے۔ اگر آپ نہیں جانتے تو اب جان لیجیے کہ پاکستان سمیت دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے موبائل فون استعمال کرنا ایک سنگین جرم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا دس سالہ روڈ سیفٹی پروگرام اور پاکستان کی حالت زار
دور حاضر میں اسمارٹ فون کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دور کوئی بھی انسانی جان سے زیادہ قیمتی اس دنیا میں کوئی دوسرے شے نہیں۔ شاید اس بات کا ادراک ان ڈرائیور صاحبان کو نہیں جو گاڑی چلاتے ہوئے اسمارٹ فون استعمال کر کے نہ صرف خود کو بلکہ سڑک پر موجود دیگر کار سواروں کو بھی خطرات کی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
عام طور پر لوگ اپنے ایک کندھے اور کان کے درمیان موبائل فون پھنسا کر فون پر بات کرتے جس سے ان کا جسم ایک مخصوص زاویے میں ہونے کی وجہ سے زیادہ آسانی سے حرکت نہیں کرپاتا اور یہی بات حادثے کی وجہ بن جاتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور قابل مذمت عادت ایک ہاتھ اسٹیئرنگ پر رکھ کر دوسرے ہاتھ سے میں موبائل فون پر SMS، ای میل پڑھنا اور اس کا جواب دینا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف ڈرائیور صاحبان کی گاڑی پر گرفت کمزور ہوجاتی ہے بلکہ موبائل فون پر نظر ہونے کی وجہ سے آگے کا منظر ٹھیک طرح سے نہیں دیکھ پاتے۔
پاکستان میں تو اس قسم کی تحقیق کا رواج نہیں کہ ہمارے یہاں ہونے والے ٹریفک حادثات کی وجوہات کیا ہیں لیکن دیگر ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار پر نظر ڈال کر ہم بہت کچھ سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ ہم واقعی ایسا کرنا چاہیں۔ سال 2013 میں امریکی انشورنس کمپنی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ملک میں ہر سال دوران ڈرائیونگ موبائل فون استعمال کرنے کی وجہ سے تقریباً 636,000 حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں 330,000 افراد کو معمولی چوٹیں جبکہ 12000 افراد کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں ان حادثات میں لگ بھگ 2700 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان حادثات میں ہونے والی مالی نقصان کی مجموعی مالیت 43 ارب ڈالر سے زائد ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی ٹریفک پولیس نے TVES کا استعمال شروع کردیا
یاد رہے کہ یہ اعداد و شمار اس ملک کے ہیں جہاں گاڑیوں میں بے تحاشہ حفاظتی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں گاڑیوں کی بناوٹ انتہائی غیر معیاری سازو سامان سے کی جاتی ہے اور پھر ان میں وہ بنیادی سہولیات بھی شامل نہیں ہوتیں جو کسی بھی حادثے کی صورت میں ڈرائیور اور اس کے ہم سفر افراد کی حفاظت کو ممکن بنائیں۔ لہٰذا اگر موبائل فون کا استعمال بہت ضروری ہو تو پہلے گاڑی کسی محفوظ جگہ پارک کریں اور پھر کال، ایس ایم ایس اور ای میل وغیرہ نمٹانے کے بعد ہی دوبارہ گاڑی چلائیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تاہم عام لوگوں کو یہ موبائل فون استعمال کرنے کے آداب بتانے کے لیے نہ تو سرکاری سطح پر کوئی کوشش کی جارہی ہے اور نہ لاکھوں کروڑوں روپے بنانے والی موبائل کمپنیاں مفاد عامہ کے لیے اس ضمن میں کوئی قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ بذات خود اپنے ہم وطنوں میں محفوظ ڈرائیونگ سے متعلق شعور اجا گر کریں ۔
تو آئیے! آج سے عہد کیجیے کہ چاہے جتنی بھی شدید ضرورت سر پر آپہنچے ہم کبھی بھی گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے موبائل فون استعمال نہیں کریں گے۔ یقین کیجیے، ہر ذمہ دار شہری کے انفرادی عمل ہی سے ایک محفوظ اور پرامن ملک کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔