یورپی اداروں کی وہ گاڑیاں جو پاکستان میں پیش کی جاسکتی ہیں!

4 219

آئندہ پانچ سالوں کے لیے منظور ہونے والی نئی آٹو پالیسی پر گاڑیوں کے شعبے سے وابستہ افراد کا ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے۔ ایک طرف جہاں موجودہ کار ساز ادارے، جنہیں بگ تھری بھی کہا جاسکتا ہے، نے نئی آٹو پالیسی کو تباہ کن اور پھر کسی حد تک قابل قبول قرار دیتے ہوئے چپ سادھ لی ہے تو دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو اس آٹو پالیسی کو شعبے میں مثبت تبدیلی اور ترقی کا نقطہ آغاز قرار دے رہے ہیں۔

گاڑیوں کے شوقین افراد بہرحال خوش نظر آرہے ہیں کیوں کہ تین دہائیوں کے بعد انہیں گاڑیوں کی فہرست میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے کا موقع ملے گا۔ نئی گاڑیوں کی آمد سے صارفین کو نہ صرف بہتر بلکہ معیاری گاڑیوں کے انتخاب کا بھی موقع میسر آسکے گا۔ تاہم اس نئی آٹو پالیسی میں جس چیز کی کمی محسوس کی جارہی ہے وہ حفاظتی اور ماحولیاتی معیارات کی تشریح نہ کیا جانا ہے۔ آپ نئے کار ساز اداروں کو ملک میں آنے کی دعوت دے رہے ہیں جو کہ بہت اچھی پیش رفت ہے تاہم اس موقع پر اگر حفاظتی اور ماحولیاتی معیارات مقرر کردیئے جاتے تو مستقبل میں بڑے مسائل سے نمٹنے میں مدد مل سکتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نئی آٹو پالیسی سے پاکستان کو حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد

پاکستان میں اب تک یورو II معیارات لاگو ہیں جو اب سے تقریباً 16 سال قبل سن 2000 میں ترک کردیئے گئے تھے۔ بین الاقوامی مارکیٹ تو ویسے بھی 2014 میں یورو IV معیارات اپنا چکی ہے لیکن پاکستان حفاظتی معیارات کے معاملے میں ان سے بہت دور نظر آتا ہے۔ امید کی جاسکتی ے کہ حکومتِ پاکستان اس ضمن میں آہستہ ہی سہی لیکن پیش رفت ضرور کرے گی اور بہت جلد نئے کار ساز اداروں کے ساتھ صارفین کی حفاظت اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے نئے قوانین بھی لاگو کیئے جائیں گے۔

VW_blue_motion_2_610x279

جاپانی اداروں کو تین دہائیوں تک مراعات دینے کے باوجود بگ تھری اپنے بچنے سے باہر نہ نکل پائے۔ ایسے میں حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ دیگر خطوں مثلاً یورپ سے تعلق رکھنے والے اداروں کو پاکستان میں گاڑیاں پیش کرنے کی دعوت دے۔ یورپی کار ساز اداروں کی جانب سے بھی کافی مثبت جواب دیکھنے میں آیا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ بہت جلد وہ یہاں سرمایہ کاری کا آغاز کریں گے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جب یورپی اداروں کی گاڑیاں پاکستان میں پیش کی جائیں گی بلکہ 60 کی دہائی کے وسط میں متعدد یورپی اور امریکی گاڑیاں یہاں دیکھی جاسکتی تھیں۔ بعد ازاں 70 کی دہائی میں جاپانی اداروں نے شعبے پر اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے مکمل اجارہ داری قائم کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: ماضی کے جھروکوں سے: 80 کی دہائی میں پیش کی گئی گاڑیوں پر ایک نظر

ایک وقت میں یہاں فیات، مورس، پیجیوٹ، رینالٹ اور دیگر یورپی کار ساز ادارے کام کرتے رہے ہیں۔ووکس ویگن بیٹل کا شمار ان یورپی گاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے آخری حد تک (1974 تک) پاکستان میں قدم جمائے رکھنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اب تقریباً 50 سال گزر جانے کے بعد یورپی اداروں کی ایک بار پھر آمد سے ان شوقین افراد کو ضرور اطمینان ملے گا جو نئی اور معیاری گاڑیاں رکھنا چاہتے ہیں۔

شاید یہ اس بارے میں حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا کہ پاکستان میں کونسی نئی گاڑیاں پیش کی جارہی ہیں تاہم سماجی و اقتصادی دیکھتے ہوئے ہم نے چند گاڑیوں کی فہرست بنائی جو یہاں صارفین کی توجہ حاصل کرسکتی ہیں۔

ووکس ویگن / VW

ووکس ویگن کا نام معیاری گاڑیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ گوکہ انہیں گزشتہ سال ڈیزل گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے شدید دھچکا پہنچا لیکن بدقسمتی سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بہرحال، ووکس ویگن سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ ان کی گاڑیاں مہران کی متبادل ہوں گی البتہ ان کی انفرادیت ضرور برقرار رہے گی۔

ووکس ویگن پولو

ووکس ویگن پولو 1200 سی سی انجن کی حامل گاڑی ہے۔ اسے 5-اسپیڈ مینوئل یا 7-اسپیڈ آٹو میٹک گیئر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ بھارت میں اس کی قیمت 5.83 لاکھ روپے جو پاکستانی روپے میں 8.3 لاکھ کے مساوی ہے۔ بھارت میں یہ ڈیزل اور پیٹرول دونوں ہی انجن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ ووکس ویگن پولو پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب سوزوکی کلٹس کو ٹکر دے سکتی ہے۔ موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ گاڑی بہت جلد صارفین کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گی کیوں کہ اب سوزوکی کلٹس (Suzuki Cultus) کوئی بھی نہیں خریدنا چاہتا۔

رینالٹ / رینو

خبروں کے مطابق 2015 میں رینالٹ کے ایک وفد نے حکومتی اہلکاروں سے ملاقات کے دوران پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی تھی۔ ماضی میں رینالٹ کی گاڑیاں پاکستان میں پیش کی جاچکی ہیں اس لیے اب دیکھنا ہوگا کہ اب یہ ادارہ کس حکمت عملی کے ساتھ یہاں دوبارہ قدم رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نسان اور رینالٹ کی نئی گاڑیاں متعارف کروانے سے متعلق گفتگو

رینالٹ کوئیڈ

رینالٹ کی یہ چھوٹی SUV بھارت میں 800 سی سی انجن کے ساتھ تقریباً 2.6 لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔ یہ رقم کم و بیش 4 لاکھ پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اسے اسی قیمت پیش کیا گیا تو یہ مہران سمیت تمام ہی چھوٹی گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ ہوسکتا ہے کہ سوزوکی مہران کا تو یہاں سے نام و نشان ہی مٹ جائے۔

رینالٹ پلس

یہ 1200 سی سی انجن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔گاڑیوں کی مارکیٹ میں اسے ووکس ویگن پولو کا مدمقابل سمجھا جاتا ہے۔ بھارت میں اس کی قیمت تقریباً 5.08 لاکھ روپے جو کم و بیش 7.9 لاکھ پاکستان روپے کے مساوی ہے۔ بھارت میں اسے ڈیزل انجن کے ساتھ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان میں ڈیزل کی قیمت زیادہ ہے اس لیے ڈیزل انجن والی گاڑیوں کی یہاں آمد غیر متوقع کہی جاسکتی ہے۔

رینالٹ اسکالا

سیڈان طرز کی یہ گاڑی 1500 سی سی انجن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ اسے ہونڈا سِٹی ایسپائر کا حریف سمجھا جاتا ہے۔ یوں یہ پاکستانی صارفین کے لیے بہترین انتخاب ثابت ہوسکتی ہے۔ بھارت میں اس کی قیمت 7.94 لاکھ روپے ہے جو پاکستانی روپے میں کم و بیش 12.3 لاکھ روپے کے برابر ہیں۔

فیات

سال 2015 میں اطالوی سفیر اسٹیفنو پونٹے کاروو نے پاکستانی صارفین کو بتایا تھا کہ فیات اگلی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کو موزوں سمجھ ریا ہے۔ اب جبکہ نئی آٹو پالیسی منظور ہوچکی ہے فیات پاکستان میں سب سے پہلے قدم رکھنے والے اداروں میں سے ایک ہوسکتا ہے۔

فیات پونٹے پیور

فیات کی یہ گاڑی 1200 سی سی انجن کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ پونٹے پیور کی خاص بات 15 کلومیٹر فی لیٹر مائلیج کہی جاتی ہے۔ بھارت میں اس کی قیمت 4.49 لاکھ روپے ہے جو پاکستانی روپے میں تقریباً 6.9 لاکھ کے مساوی ہے۔ اس اعتبار سے اسے متوسط طبقے کے لیے بہترین انتخاب قرار دیا جاسکتا ہے۔

فیات لینیا

لینا 1400 سی سی سیڈان ہے جس کی بھارت میں قیمت صرف 7 لاکھ روپے ہے۔ اس اعتبار سے پاکستانی روپے میں اس کی قیمت تقریباً 10.9 لاکھ روپے بنتی ہے۔ اگر اس گاڑی اسی قیمت پر یہاں فروخت کے لیے پیش کیا گیا تو یہ جلد مقبولیت حاصل کرسکتی ہے کیوں کہ اس وقت ہماری مارکیٹ میں اس قیمت میں کوئی سیڈان گاڑی موجود نہیں۔

یہ فہرست کافی طویل ہوسکتی ہے لیکن بہتر ہوگا کہ تھوڑا انتظار کیاجائے اور دیکھا جائے کہ کونسا ادارہ کس گاڑی کے ساتھ شروعات کرتا ہے۔ حکوت نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے اب نئے کار ساز اداروں کے لیے بھرپور موقع ہے کہ پاکستان آئیں اور گاڑیوں کے شعبے میں اپنا لوہا منوائیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ منظور شدہ آٹو پالیسی پر جلد عملدرآمد شروع ہوگا اور نئے کار ساز اداروں اپنے وفود کے ہمراہ جلد پاکستان پہنچیں گے۔ حکومت کو ‘ٹیکنالوجی کی منتقلی’ پر بھی غور کرنا ہوگا جو کہ تین دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی ممکن نہ ہوسکا اور آج بھی ہم انجن کے لیے دیگر ممالک سے مدد حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

اس وقت ضرورت ہے کہ گاڑیوں کے شوقین افراد آگے آئیں اور نئی آٹو پالیسی سے ہونے والی تبدیلی کی بھرپور حمایت کریں۔ نئے کار ساز ادارے صرف اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں کہ جب صارفین انہیں سنجیدہ لیں۔ ہمیں بعد از استعمال فروخت کرنے کی سوچ سے باہر نکلنا ہوگا اور نئے اداروں کو ایک موقع فراہم کرنا ہوگا۔ اس سے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ آنے والے سالوں میں بہت سے غیر ملکی ادارے بھی یہاں کا رخ کریں گے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.