حکومت نے کار کمپنیز سے قیمتوں میں اضافے کی وضاحت مانگ لی

0 5,364

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے گاڑیوں کی قیمتوں میں بار بار اضافے اور مقامی طور پر تیار شدہ گاڑیوں میں سیفٹی فیچرز کی کمی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پی اے سی، وزارت صنعت و پیداوار، وزارت خزانہ اور انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے اجلاس کے دوران عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

اجلاس کے دوران پی اے سی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے وزارت صنعت سے مقامی طور پر تیار شدہ کاروں کی قیمتوں میں بار بار اضافے پر نظر رکھنے کے لیے کیے جانیوالے اقدامات کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے ان گاڑیوں کے گِرتے معیار پر بھی سوال اٹھایا۔

مانیٹرنگ کمیٹی اور کار کمپنیاں

دوسری جانب جواب دیتے ہوئے وزارت صنعت نے کہا کہ حکومت نے نئی آٹو پالیسی (2021-2026) کے تحت ایک مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی ہے۔ وزارت صنعت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ کمیٹی نے پہلے ہی اس معاملے پر آٹو انڈسٹری سے وضاحت طلب کی تھی۔

وزارت نے مزید کہا کہ کمیٹی کمپنیز سے جواب طلب کرے گی اور ان کے اعدادوشمار کا خام مال کی قیمتوں میں اضافے اور ان کی آپریشنل لاگت سے موازنہ کرے گی۔ وزارت نے کہا کہ کمیٹی انڈسٹری کے سیفٹی سٹینڈرڈز کی تعمیل کا بھی جائزہ لے گی۔

سیفٹی فیچرز

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ پی اے سی نے مقامی طور پر تیار شدہ کاروں میں سیفٹی فیچرز کی کمی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ اس نکتے پر بحث کرتے ہوئے انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (EDB) نے کہا کہ بین انٹرنیشنل آٹو سٹینڈرڈز کو مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔ ای ڈی بی کے سربراہ نے پی اے سی کو بتایا کہ جولائی 2022 کے بعد 15 سٹینڈرڈز لازمی ہو جائیں گے۔

لوکلائزیشن

وزارت خزانہ کے ورکنگ پیپر کے مطابق آٹو انڈسٹری کی پیداوار مُلک کے جی ڈی پی کا 2.8 فیصد ہے۔ یہ شعبہ 500000 لوگوں کو ملازمت دیتا ہے اور 2.4 ملین بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔ ورکنگ پیپر میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے کاروں اور لائٹ کمرشل گاڑیوں میں 73 فیصد تک لوکلائزیشن، ٹریکٹرز میں 90 فیصد اور موٹر سائیکلوں میں 94 فیصد تک لوکلائزیشن حاصل کی ہے۔

اگر اعداد و شمار درست ہیں تو قیمتوں میں بار بار اضافہ سنگین تشویش پیدا کرتا ہے۔ کار اور بائک کمپنیز نے شپنگ چارجز میں اضافے کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ خام مال کی عالمی قیمتوں کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن اگر 94 فیصد تیاری مقامی طور پر کی جائے تو اس کا اتنا زیادہ اثر نہیں ہونا چاہیے۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کمپنیاں مقامی طور پر صرف چھوٹے حصوں کو تیار کرتی ہیں اور اسے لوکلائزیشن کہتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کمپنیاں بار بار قیمتیں بڑھانے کے لیے کن فارمولوں پر عمل پیرا ہیں؟ ہمارا خیال ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے صحیح اتھارٹی کے ساتھ ایک مناسب ادارہ ہونا چاہیے۔

قیمتوں میں بار بار اضافے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ جائز ہے؟ کمنٹس سیکشن میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.