بڑی شاہراہوں پر ٹریفک جام کیوں ہوتا ہے؟
میں روزانہ اپنے گھر سے دفتر جاتے ہوئے اور پھر واپس دفتر سے گھر آتے ہوئے شاہراہ فیصل سے گزرتا ہوں۔یہ کراچی شہر کی چند مصروف ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ گو کہ صبح کے اوقات میں شاہراہ فیصل پر ٹریفک کی صورتحال بہتر ہوتی ہے اور گاڑیاں اپنی منزل کی جانب رواں دواں نظر آتی ہیں لیکن شام کے اوقات میں ٹریفک جام اور رینگتی ہوئی گاڑیوں کے بے ہنگم ہجوم ہوتا ہے جس کا سوچتے ہوئے بھی میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب ٹریفک جام کا سامنا کرے بغیر وقت پر گھر پہنچا ہوں۔
ہوٹل میٹروپول اور ہوٹل آواری ٹاور کے سنگم سے شروع ہونے والی یہ طویل شاہراہ کراچی ہوائی اڈے کے مشہور زمانہ اسٹار گیٹ پر ختم ہوتی ہے۔ اس شاہراہ پر میرا سفر تو روزانہ تقریباً 26 کلومیٹر ہے لیکن ان لوگوں کے بارے میں سوچ کر ہی خوف آتا ہے جو اس شاہراہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرتے ہیں۔ نہ جانے وہ اپنے دفتر سے گھر واپس پہنچ کر پہچانے بھی جاتے ہوں گے یا نہیں۔
کراچی کی اس معروف سفارتی سڑک سے گزرتے ہوئے میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس ٹریفک جام کی آخر وجہ کیا ہے؟ سگنل تو اس شاہراہ پر ہے نہیں کہ جہاں گاڑیوں کو بار بار بریک لگانا پڑے۔ اس “وی آئی پی” شاہراہ پر بڑے مال بردار ٹرک اور گدھا گاڑی وغیرہ کے داخلے کی بھی اجازت نہیں جن کی وجہ سے گاڑیوں کو رفتار کم کرنی پڑتی ہو۔ کوئی پرانی اور خراب گاڑی بھی نظر نہیں آتی جو پنکچر ہوجانے یا انجن سے دھواں نکالنے سے غیر معمولی ٹریفک جام کی وجہ بن رہی ہو۔ چنگچی اور رکشا بھی نظر نہیں آئے کہ جو ریس لگاتے ہوئے ایک دوسرے میں گھس کر ایکسیڈنٹ کر بیٹھے ہوں۔ اس کے علاوہ بھی کوئی اور ظاہری صورت نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے یہاں گاڑیوں کی قطار لگی رہتی ہو۔
اس مسئلہ پر مزید غور کرنے پر پتہ چلا کہ یہ دراصل “اکارڈیَن افیکٹ” (accordion effect) کا معاملہ ہے۔ طبیعیات (physics) کے اس قانون کی رو سے مخصوص سمت میں جانے والی کسی چیز کی رفتار تبدیل (کم / زیادہ) ہونے پر اس کی پیروی کرنے والی تمام چیزوں کی رفتار میں بھی تبدیلی واقع ہوگی۔ ایسا عام طور پر روڈ ٹریفک، سائیکلوں کی دوڑ اور خاص سمت کی طرف جانے والی چیزوں کی قطار کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ شاہراہ فیصل جیسی 3 لین والی کشادہ سڑکوں پر بھی آپ کو گاڑی چلاتے ہوئے کئی بار اپنی رفتار زیادہ کرنی پڑتی ہے اور پھر اچانک بریک استعمال کرنا پڑتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال آپ کے پیچھے آنے والی گاڑیوں کے ساتھ بھی پیش آتی ہے جس سے “اکارڈیَن افیکٹ” بنتا ہے۔
اب اگر کوئی گاڑی، کچھ دیر کے لیے ہی سہی، شاہراہ فیصل جیسی مصروف سڑک پر اپنی رفتار کم کرتی ہے تو اس سے پیچھے آنے والی گاڑیوں کو بھی سست ہونا پڑتا ہے۔ پھر وہی صورتحال پیش آتی ہے جو مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کو تکلیف میں مبتلاء کرتی ہے۔
مجھے تو اس وقت سے خوف آتا ہے کہ جب کسی مصروف شاہراہ پر ایک چلتی گاڑی اچانک خراب ہوجائے اور پھر اسے دھکیل کر کنارے پر لانا پڑے۔ اس سے ایسا “اکارڈیَن افیکٹ” بنے گا جو گھنٹوں تک جاری رہنے کے بعد بھی شاید ختم نہ ہو۔