ہونڈا 125 کی غیر معمولی مقبولیت کی 5 وجوہات
ہونڈا CG125 کسی موٹر سائیکل کا نام نہیں۔ یہ ایک استعارہ ہے کہ جسے پاکستان میں کسی شخص کی حیثیت بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی غیر معمولی مقبولیت دیکھتے ہوئے اس بات کے بہت کم امکانات نظر آتے ہیں کہ ایٹلس ہونڈا مستقبل قریب میں اس کی جگہ کوئی نئی موٹر سائیکل متعارف کروائے گا۔ ہوسکتا ہے بہت سے لوگوں کو یہ محض خام خیالی لگے تاہم میں چاہوں گا کہ قارئین اس تحریر کو آخر تک پڑھیں تاکہ میرے اس گمان کی وجہ کو مکمل سمجھ سکیں۔
گزشتہ سال ایٹلس ہونڈا نے شیخوپورہ میں قائم اپنے کارخانے کی استعداد میں اضافے کے لیے 100 ملین ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ تین سال پر محیط اس سرمایہ کاری سے کارخانہ میں تیار ہونے والی موٹر سائیکلوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ ایٹلس ہونڈا کی جانب سے 12 لاکھ موٹر سائیکلوں کی تیاری کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایٹلس ہونڈا کے سربراہ نے بتایا تھا کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے بعد موٹر سائیکل کی فروخت میں اضافے کی توقع کی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایٹلس ہونڈا اپنی موٹر سائیکلوں کی پیشکش کو مزید وسعت دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ موٹر سائیکلیں فروخت کرنے والے ادارے ایٹلس ہونڈا کا یہ بیان کافی حوصلہ افزا ہے۔ موٹر سائیکل کے شوقین افراد کی کثیر تعداد نئی سرمایہ کاری کے اعلان سے یہ بھی نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ ہونڈا نئی موٹر سائیکلیں اور ماڈلز بھی پیش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم میرے خیال میں کم از کم CG125 کی جگہ تو کوئی دوسری ہونڈا بائیک نہیں پیش کی جائے گی۔ اس کی بنیادی وجوہات یہ ہے:
1) موٹر سائیکل کا ڈیزائن
ہونڈا 125 کی سب سے قابل ذکر خاصیت اس کا سادہ ڈیزائن ہے جو اپنا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔اگر آپ موٹر سائیکل کے شوقین کسی نوجوان سے اس کی خاص بات پوچھیں تو وہ ضرور اس کی گھن گھرج کا ذکر ضرور کرے گا۔ علاوہ ازیں اس کا سادہ اور سیدھا ڈیزائن ان لوگوں کے لیے بھی کافی سودمند ہے کہ جو سامان برداری کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے ڈیزائن کی وجہ سے یہ موٹر سائیکل چھوٹی فیملی کے لیے بھی موزوں ہے اور یہی اس کی بے پناہ پسندیدگی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ میری تعریف یا تنقید کو ایک طرف رکھ کر بھی دیکھیں تو اس موٹر سائیکل نے اپنی مضبوطی اور پائیداری کی وجہ سے بھرپور داد حاصل کی ہے۔ یہ موٹر سائیکل مینٹی نینس کروائے بغیر بھی اضافی بوجھ کے ساتھ لمبے عرصے تک چلائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ وزن میں ہلکے ہونے کی وجہ سے یہ بہت جلد رفتار بھی پکڑ لیتی ہے اس لیے ٹریفک جام سے باہر نکلنے اور لین بدلنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگتی۔
یہ بھی پڑھیں: اپنی مدد آپ: ہونڈا CG125 کی کِک ڈھیلی ہوجانے کا مسئلہ خود حل کریں!
2) قدیم اور پائیدار انجن
ڈیزائن کے بعد بات کرتے ہیں 40 سال پرانے انجن کی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں یہ واقعی کمال کا انجن ہے۔ انجن کی ایک چوتھائی مقدار میں بھی یہ اپنا کام بخوبی انجام دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موٹر سائیکل پر کسی قسم کے گیجٹس نہیں لگائے گئے جس کی وجہ سے آپ کو کسی قسم کی لرزش یا تھرتھراہٹ کا احساس ہو۔ دراصل اس طرح کی موٹر سائیکلوں کو عریاں انداز والی بائیک کہا جاسکتا ہے۔ البتہ دور حاضر کی جدید موٹر سائیکلوں اور ان میں شامل کی جانے والی حفاظتی سہولیات کے برعکس ہونڈا 125 نہ صرف تاریخی بلکہ اپنے انداز میں بھی قدیم ہے۔
3) آسان دیکھ بھال اور سروس
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ اس موٹر سائیکل پر کسی قسم کے اضافی گیجٹس نہیں لگائے گئے کہ جنہیں تھوڑے عرصے بعد ٹھیک یا تبدیل کروانا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی دیکھ بھال بھی بہت ہی آسان ہے۔ چونکہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کے مکینک زیادہ پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اس لیے وہ آسان چیزوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ یہ امر بعد از استعمال موٹر سائیکل اور گاڑی کی اچھی قیمت پر فروخت کا بھی ضامن سمجھا جاتا ہے۔ مزید برآں اس کے برقی نظام کو بیٹری کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ اس کا انحصار انجن کی اپنی موٹر سے پیدا ہونے والی بجلی پر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یاماہا بھی سوزوکی اور ہونڈا کی روش اختیار کرے گا یا اپنی انفرادیت برقرار رکھے گا؟
4) سب سے زیادہ فروخت ہونے والی
یہ وہ نکتہ ہے جو بہت سے لوگوں (بشمول میرے) کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہت سے پاکستانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس چالیس سال پرانی موٹر سائیکل کی دور جدید کی بائیکس کے مقابلے میں کیا اوقات ہے، لیکن پھر بھی وہ اسے خریدتے اور بیچتے رہتے ہیں۔ بہرحال، اس کی تمام تر ذمہ داری صرف خریداروں پر ڈالنا درست نہیں کیوں کہ آٹوموبائل شعبے کی پالیسیوں میں وقت کے ساتھ تبدیلی نہ کرنے اور ملک میں مسابقت کی فضا قائم نہ رکھنے کی وجہ سے اتنی بڑی مارکیٹ میں اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔ پاما کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایٹلس ہونڈا نے مالی سال 2015-16 کے دوران 8,11,034 موٹر سائیکل فروخت کیں۔ اس سے قبل مالی سال 2014-15 میں فروخت ہونے والی ہونڈا موٹرسائیکلوں کی مجموعی تعداد 6,53,193 رہی تھی۔ اس کے علاوہ بعد از استعمال اچھی قیمت، ملک بھرمیں پھیلے ہوئے نیٹ ورک، مکینک صاحبان کی آسانی اور سستے پرزوں کی دستیابی بھی ان وجوہات میں شامل ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ موٹر سائیکل آج بھی موٹر سائیکل خریدنے والوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔
5) مقابلے کا فقدان
جب تک مختلف ممالک کی حکومتوں نے کار ساز اداروں کو اپنی گاڑیاں بہتر بنانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا تب تک گاڑیاں بنانے والے ادارے جدت سے دور رہے۔ اس کی ایک مثال ٹکاٹا ایئر بیگز کی وجہ سے ہونے والے حادثات بھی ہیں۔ اگر اسی زاویے سے دیکھا جائے تو ہونڈا 125 یا کسی بھی دوسری موٹر سائیکل کے ڈیزائن میں نمایاں تبدیلی اسوقت تک نہیں آئے گی جب تک ان پر ان قدیم موٹر سائیکلوں سے جان چھڑانے کے لیے دباؤ نہ ڈالا جائے۔ ہمارے یہاں کی مارکیٹ میں بہت زیادہ بہتری کی گنجائش ہے تاہم اجارہ داری کے باعث کسی اچھے کی امید رکھنا فضول ہی ہے۔
پاکستان میں اگر کوئی ایٹلس ہونڈا کا قریب تریم حریف نظر آتا ہے تو وہ یونائیٹڈ آٹوز ہے۔ تاہم ان دونوں ہی اداروں کی فروخت اور آمدن میں بہت واضح فرق ہے۔ گزشتہ مالی سال ایک طرف ایٹلس ہونڈا نے 8,11,034 موٹر سائیکلیں فروخت کیں تو دوسری جانب یونائیٹڈ آٹوز صرف 2,62,773 موٹر سائیکلیں ہی فروخت کرسکا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایٹلس ہونڈا کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والا ادارہ بھی کس قدر پیچھے ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایٹلس ہونڈا مزید سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی استعداد میں مزید اضافہ بھی کر رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق آئندہ سالوں میں یہ 12 لاکھ موٹر سائیکل سالانہ تیار اور فروخت کرنے کے قابل ہوسکے گا۔
پاکستان میں موٹر سائیکلوں کی مجموعی فروخت کے دیگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ان میں بھی کوئی ادارہ ایٹلس ہونڈا کی رفتار سے ترقی کرتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ گو کہ یاماہا نے مالی سال 2015-16 کے دوران 16,109 موٹر سائیکلیں فروخت کر کے اس بات کا احساس دلایا ہے کہ نئی، جدید اور کم قیمت موٹر سائیکل ہی مستقبل میں ہونڈا کی اجارہ داری کا خاتمہ کرسکتی ہیں۔ 125cc بائیکس کے زمرے میں یاماہا (دیوان یاماہا علیحدہ کمپنی تھی) صرف راوی پیاگو اور ہیرو 125 چوپر ہی ہونڈا 125 کی متبادل موٹر سائیکلیں دستیاب تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: 1 سے 1.5 لاکھ روپے میں دستیاب 5 نئی موٹر سائیکلیں!
اختتامی کلمات
اس وقت ایٹلس ہونڈا پاکستان میں موٹر سائیکل کی مارکیٹ کی نصف سے زائد ضرورت کو پورا کر رہی ہے اور مستقبل میں یہ تعداد مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ تاہم نئی سرمایہ کاری اور کارخانے کو وسعت دینے کے باوجود بائیک ساز ادارے کی جانب سے کسی نئی موٹر سائیکل یا ماڈل کی پیشکش کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اس کے برعکس امکان یہی ہے کہ یہ ادارہ اپنی موجودہ موٹر سائیکلوں ہی کو اضافی تعداد میں تیار کر کے فروخت کرتا رہے گا۔اس کی تازہ ترین مثال ایٹلس ہونڈا کے پیش کردہ موٹر سائیکلوں کے 2017 ماڈلز سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جن میں صرف اسٹیکرز کے علاوہ کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی گئی۔ کسی بھی ادارے کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری نہایت خوش آئند قدم ہے تاہم اس سے نئی اور جدید موٹر سائیکلوں کی طلب بھی پوری کی جائے تو یہ سونے پہ سہاگا ہوگا۔
یہاں دل پر پتھر رکھ کر ایک بات تسلیم کرنی چاہیے کہ تمام تر قصور ایٹلس ہونڈا یا کسی دوسرے ادارے کا نہیں ہے۔ موٹر سائیکل فروخت کرنے والے تمام ہی ادارے یہاں کاروبار کی غرض سے مصروف ہیں اور جب صارفین ہی قدیم وقتوں کی کسی چیز کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں تو بھلا کوئی بھی کاروباری ادارہ اس موقع سے کیوں ہاتھ دھونا چاہے گا۔ میرے خیال سے پاکستانی صارفین کو سمجھنا چاہیے کہ ‘ نیا نو دن پرانا سو دن’ کا نظریہ کم از کم موٹر سائیکلوں پر لاگو نہ کریں کیوں کہ یہاں پرانی موٹر سائیکلوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی اور تیل کی کھپت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یاماہا YBR 125 اور YBR 125G ماہانہ اقساط پر بھی دستیاب!
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا یاماہا اور کیوے 150 موٹر سائیکل کے شعبے میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں تاہم کیوے 150 کو ابھی ہمارے سڑکوں پر رواں دواں دیکھا جانا باقی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کیوے کے اعلی معیار اور انتہائی جاذب نظر انداز کی وجہ سے بہت سے خریدار اس کا انتخاب کریں گے۔ یاد رہے کہ یاماہا اور کیوے سے پہلے راوی پیاگو اور ہیرو 125 چوپر ہی ہونڈا 125 کا متبادل سمجھی جاتی تھیں۔
آخری میں بتانا چاہوں گا کہ جتنا ہم پاکستان میں سرمایہ کاری اور اس کے اقتصادی پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے خوش ہورہے ہیں اس سے کہیں زیادہ خوشی ہمیں اس وقت ہوتی کہ جب ایٹلس ہونڈا یہاں نئی موٹر سائیکل پیش کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کرے۔