نان-کسٹم پیڈ گاڑیاں، جنہیں عام طور پر NCP کاریں کہا جاتا ہے، مقامی آٹو انڈسٹری کو درپیش سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ ان گاڑیوں کو خریدنے کے نتائج سے قطع نظر لوگ صرف پیسہ بچانا چاہتے ہیں۔ اس بلاگ میں ہم اپنے قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ نان-کسٹم پیڈ گاڑی خرید کر وہ کیا مول لے رہے ہیں۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ نان-کسٹم پیڈ گاڑیاں سستی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں خریدنا چاہیے، لیکن یہ غیر قانونی سرگرمی ہے جو محض ملکی معیشت اور قومی خزانے کو ہی نقصان نہیں پہنچاتی کیونکہ اس میں ٹیکس اور ڈیوٹی ادا نہیں کی جاتی بلکہ یہ واضح اعلان بھی کرتی ہے کہ آپ ایک اچھے شہری نہیں ہیں۔ اس گاڑی کے لیے کاغذات بھی طریقے سے بنائے جاتے ہیں جو غیر قانونی بھی ہیں یعنی آپ فراڈ کے مرتکب ہو رہے ہیں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پکڑے جانے کی صورت میں آپ کو جیل بھی پہنچا سکتے ہیں۔
کسٹم پیڈ گاڑیوں کے مقابلے میں نان-کسٹم پیڈ گاڑیوں کی قیمتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ حکومت نے گاڑیوں کی انجن گنجائش کے اعتبار سے ٹیکس کی مختلف شرح طے کر رکھی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک نان-کسٹم پیڈ گاڑی خریدیں گے اور بغیر کسی پریشانی کے جتنا چاہیں گے، اسے استعمال کریں گے، لیکن یہ شہری کی حیثیت سے ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ اس امر کی 100 فیصد ضمانت نہیں ہے کہ جو گاڑی آپ نے خریدی ہے وہ نان-کسٹم پیڈ گاڑی ہی ہے یا چوری کی ہے۔ کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں کہ جہاں فروخت کرنے والے نے نان-کسٹم پیڈ کہہ کر چوری شدہ گاڑی بیچ دی اور خریدنے والے کو اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔
نان-کسٹم پیڈ گاڑیاں غیر قانونی طریقے سے پرزوں اور ٹکڑوں میں ملک میں اسمگل کی جاتی ہیں اور اس کے بعد انہیں سرحد پار کرکے مکینکس دوبارہ اسمبل کرتے ہیں۔ یہ پرزہ پرزہ گاڑیاں اسمبل کرنے والے مکینک کوئی ماہر نہیں ہوتے۔ سادہ الفاظ میں ایک مرتبہ کھل جانے اور دوبارہ اسمبل کرنے کے عمل میں گاڑی کے معیار اور سالمیت پر کوئی بھروسہ نہیں رہتا۔ دنیا بھر میں گاڑیاں بنانے والے ادارے ان گاڑیوں کو بنانے میں بہت محنت کرتے ہیں، اور انہیں ممکنہ حد تک محفوظ بنایا جاتا ہے لیکن ان سب پہلوؤں سے نظریں چرا لی جاتی ہیں۔
مزید برآں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسی مشتبہ نان-کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار چلانے والے افراد دیگر ملکوں میں یا بنانے والے متعلقہ ممالک میں بھی پیش کردہ قیمتوں کے مقابلے میں سستی جاپانی یا جرمن کاریں پیش کرتے ہیں۔ اس کے دو ممکنہ پہلو ہیں کہ آخر وہ اتنی سستی گاڑی کیوں بیچ رہے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ گاڑی چوری کی ہے اور اور وہ اسے نان-کسٹم پیڈ کار کے طور پر بیچ رہے ہیں۔ نان-کسٹم پیڈ گاڑیاں خریدنے والے افراد بھی اپنی خریدی گئی گاڑی کی تصدیق کے لیے کسٹمز آفس نہیں جاتے؛ کہ آیا کہ یہ چوری شدہ ہے یا نہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک غیر قانونی کام کر رہے ہیں اور اگر اس عمل میں پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے تو انہیں فراڈ پر کئی سال کی قید ہو سکتی ہے۔
دوسرا منظرنامہ ہے کہ گاڑیاں فروخت کرنے والا آپ سے کل رقم کا ایک کچھ حصہ بھیجنے کو کہے تاکہ وصول ہوتے ہی آپ کو گاڑی بھیج دی جائے۔ لیکن وہ پیسہ لے کر بھاگ جائے اور دوبارہ کبھی نظر نہ آئے۔ یوں آپ کو نہ صرف یہ کہ گاڑی نہیں ملے گی بلکہ بھیجی گئی رقم بھی گئی۔
2013ء میں حکومت نے ایمینسٹی اسکیم کے تحت نان-کسٹم پیڈ گاڑیوں کو قانونی حیثیت دی تھی۔ گزشتہ چند ماہ سے PakWheels.com پر کئی افراد یہ پوچھ رہے ہیں کہ ایمینسٹی اسکیم کی صورت حال کیا ہے جو حکومت نے گزشتہ سال جاری کی تھی۔ یہ بتاتے چلیں کہ حکومت نے صرف غیر قانونی رقوم اور غیر ملکی اثاثہ جات کے لیے ایمینسٹی اسکیم جاری کی تھی، اور یہ نان-کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے نہیں تھی۔ ایسی مافیا موجود ہے جو نان-کسٹم پیڈ گاڑیاں لوگوں کو فروخت کر رہے ہیں ساتھ ہی یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ وہ حکومت کی ایمینسٹی اسکیم کے تحت گاڑی کو قانونی بنا سکتے ہیں، حالانکہ درحقیقت یہ سچ نہیں ہے۔
ہم اس پہلو پر بارہا توجہ دلا رہے ہیں کہ حکومت نے 2013ء کے سوا ان گاڑیوں کے لیے کسی ایمینسٹی اسکیم کا اعلان نہیں کیا اور یاد رہے کہ 2013ء میں جن نان-کسٹم پیڈ گاڑیوں کو قانونی حیثیت دی گئی تھی ان کے معاملات بھی ابھی تک مکمل واضح نہیں کیونکہ کئی گاڑیوں کو رجسٹریشن کے مسائل کا سامنا ہے۔
بلاشبہ نان-کسٹم پیڈ گاڑیوں کی قیمت ممکنہ خریدار کی توجہ کھینچتی ہے، لیکن مشورہ یہی ہے کہ کسی بھی مسئلے یا قید سے بچنے کے لیے صرف کسٹم پیڈ گاڑی خریدیں۔
جناب سنیل منج نان-کسٹم پیڈ گاڑیوں کے مسائل پر کچھ بات کر رہے ہیں، ان کے خیالات مندرجہ ذیل وڈیو میں دیکھیں: