کیا آپ کی “نئی گاڑی” واقعی “نئی” ہے؟

1 252

اب سے چند روز قبل میرے دوست نے ایک مضمون کی نشاندہی کی جس میں نئی گاڑیوں کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔ مضمون میں لکھا تھا کہ نئی گاڑیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے دوران نقصان پہنچتا ہے لیکن اس کی نوعیت معمولی ہونے کی وجہ سے کار فروخت کرنے والے گاہک کو بتائے بغیر گاڑیاں بیچ سکتے ہیں اور ان پر کسی قسم کی کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔ چونکہ مضمون نگار کا تعلق امریکا سے تھا اس لیے انہوں نے اپنے ہی ملک کی مثالیں تحریر کیں۔ انہوں نے لکھا کہ گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ اس کی مجموعی قیمت سے لگایا جاتا ہے۔ اگر ایک محدود لاگت میں نقصان کا ازالہ ممکن ہے تو پھر صارف کو اس سے متعلق آگاہ کرنا ضروری نہیں۔

یہاں اس مضمون میں دی گئی مثالیں بھی بیان کرتا چلوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ امریکی مصنف نے لکھا کہ انہوں نے شمالی کیرولائنا سے 28,138 ڈالر کے عوض سوبارو WRX خریدی۔ شمالی کیرولائنا میں رائج ریاستی قوانین کے تحت گاڑی فروخت کرنے والے مجموعی قیمت کا 5 فیصد کسی خرابی کو دور کرنے یا ضروری مرمت کرنے پر خرچ کرسکتے ہیں۔ اگر مرمت میں گاڑی کے مجموعی مالیت کی 5 فیصد سے زیادہ رقم لگ رہی ہو تو پھر صارف کو آگاہ کرنا لازمی ہے۔ مثلاً اگر سوبارو کی قیمت 28,138 امریکی ڈالر ہے تو نقصان کو ٹھیک کرنے کے لیے 1,400 امریکی ڈالر خرچ کر کے گاڑی فروخت کی جاسکتی ہے۔ اس حوالے سے مزید معلومات آپ یہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اس مضمون کو پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کیا ایسا پاکستان میں بھی ممکن ہے؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے ہمیں ملنے والی نئی نویلی ٹویوٹا کرولا میں بھی کچھ مسائل آجاتے ہوں جنہیں جیسے تیسے ٹھیک کر کے گاڑی فروخت کی جاتی ہو اور خریدنے والے کو علم بھی نہ ہوتا ہو۔ حادثات سے بچنے کی سعی تو سب ہی کرتے ہیں لیکن پھر بھی قدرت سے کون جیت سکتا ہے، اس لیے کسی بھی غیر معمولی صورتحال کا امکان پھر بھی رہتا ہے۔ ہونڈا ایٹلس کا کارخانہ لاہور کے قریب واقع ہے جبکہ پاک سوزوکی اور انڈس موٹرز کراچی میں گاڑیاں تیار کرتی ہیں۔ ان کار ساز اداروں کی تیار کردہ گاڑیاں جب ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کی جاتی ہیں تو ان میں کئی ایک ضرر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو گاڑیاں لے جانے والا ٹرالر بھی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے۔ لیکن جب گاڑی فروخت کے لیے پہنچتی ہے تو وہاں موجود مکینک اپنے آلات کے ساتھ اس کو پہنچنے والے نقصان کو ٹھیک کرنے پر تل جاتے ہیں اور اس سے پہلے کہ وہ صارف کو دی جائے گاڑی کو بخوبی رنگ بھی کردیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعد میں رنگ کی گئی گاڑیوں کو پہچاننا بہت مشکل ہے یوں زیادہ تر لوگ یہ پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں کہ آیا گاڑی کا رنگ “جینوئن” ہے یا اسے بعد میں مرمت کے مرحلے سے گزارا گیا ہے۔

آپ کو ایسے بے شمار لوگ ملیں گے جو اپنی نئی گاڑی میں کسی نہ کسی مسئلے کا شکار رہے ہیں۔ کسی کو پینلز کی درستگی کا مسئلہ ہے، کسی کو اگلے حصے میں کچھ چیزیں مناسب معلوم نہیں ہوتیں وغیرہ وغیرہ۔ میں خود ایسے کئی لوگوں سے مل چکا ہوں جن کے خیال میں ان کی گاڑی کا رنگ اصلی نہیں بلکہ اس کے کچھ حصوں پر رنگ مختلف محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے ہیونڈائی شہزور کی تصاویر ضرور دیکھی ہوں گی جس کی چھت صرف اس وجہ سے کچلی گئی کہ اسے لانے والے ٹرالر کو 9th ایوینیو کی اونچائی کا اندازہ ہی نہ تھا۔ اگر آپ اس حادثے سے متعلق نہیں جانتے تو پاک ویلز فورم پر موجود تحریر اور ذیل میں دستیاب تصاویر ملاحظہ کریں۔ انہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حادثات کیسے ہوسکتے ہیں۔

Hyundai Shahzore (1) Hyundai Shahzore (3) Hyundai Shahzore (4)

اس کے علاوہ ایک اور اہم معاملہ ہماری گاڑیوں کے معیار کا بھی ہے جو بین الاقوامی معیار سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ یہ سب باتیں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسا بالکل ممکن ہے کہ آپ کو مرمت شدہ گاڑیاں فروخت کی جا رہی ہوں۔ اس بات کا بھی بالکل امکان ہے کہ گاڑی میں ہونے والے مسائل نقل و حمل کے دوران کسی حادثے کا پیش خیمہ نہ ہوں بلکہ گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانوں ہی میں کوتاہی برتی گئی ہے جسے بعد میں فروخت کار ٹھیک کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے یہاں “کوالٹی اشورنس” پر برائے نام ہی عمل کیا جاتا ہے۔

گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں پاک ویلز کار شور ٹیم کے سربراہ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ہمیں دسویں جنریشن ٹویوٹا کرولا نظر آئی جس کا رنگ نقرئی یعنی Silver تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ گاڑی کے پچھلے بمپر (bumper) کا رنگ گاڑی کے اصل رنگ سے تھوڑا ہلکا ہے اور یہی معاملہ اگلے بمپر کے ساتھ بھی تھا۔ جب میں اس بات کا ذکر اپنے ساتھی سے کیا تھا اس نے میری غلط فہمی دور کرتے ہوئے بتایا کہ رنگوں کا یہ امتزاج ادارے ہی کی جانب سے رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انڈس موٹرز نے بمپرز پر نقرئی رنگ کرنے سے پہلے درکار اضافی رنگ (جسے primer کہا جاتا ہے) نہیں کیا جس کی وجہ سے وقت کے ساتھ نقرئی رنگ ہلکا ہوتا گیا اور وہ گاڑی کے اصل رنگ سے مختلف محسوس ہونے لگا ہے۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گاڑی کو نقل و حمل کے دوران پہنچنے والا حادثے تو بعد کی چیز ہیں لیکن اس بات کے بھی امکانات بدرجہ اتم موجود ہیں کہ گاڑی کی تیاری میں کوتاہی برتی گئی ہو۔ یہ ایک ایسا کڑوا سچ ہے جسے تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس طرح کی گاڑی ہمیں ملے جو بظاہر نئی ہو لیکن اس کی تیاری میں نقص ہو تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، امریکا میں گاڑیاں فروخت کرنے والوں کو ایک محدود نقائص کو چھپانے کا اختیار حاصل ہے لیکن اس حد سے تجاوز کرنے پر صارف کو گاڑی میں آنے والی خرابی اور اس کی درستگی سے متعلق آگاہ کرنا ضروری بھی ہے۔ تاہم میرے علم میں کوئی ملکی قانون ایسا نہیں جو کار ساز اداروں یا فروخت کرنے والوں کو اس بات کا پابند بناتا ہو۔ اس حوالے سے میں نے انٹرنیٹ پر کافی معلومات تلاش کیں اور متعلقہ افراد سے بھی رابطہ کیا لیکن کسی نے بھی مجھے اس حوالے سے حتمی معلومات فراہم نہیں کیں۔

DamageHonda(4) DamageHonda(9) DamageHonda(6) DamageHonda(5) DamageHonda(7) DamageHonda(8)

پاکستان میں گاڑیاں تیار کرنے والے تینوں بڑے اداروں، پاک سوزوکی، ٹویوٹا انڈس موٹرز اور ہونڈا یٹلس کا تعلق جاپان سے ہے اور تینوں جاپانی ادارے دنیا بھر میں اپنی ساکھ بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ حتی کہ بعد از فروخت بھی صارفین کو بہترین خدمات فراہم کرتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو کبھی مقامی کار ساز ادارے سے شکایت ہو جو ان میں سے کسی ایک سے بھی منسلک ہے تو آپ بذریعہ ای میل اپنی شکایت بھیج سکتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ بظاہر معمولی نظر آنے والا یہ عمل بہت بڑے کام انجام دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار پاک ویلز کے رکن نے سوزوکی جاپان کو بذریعہ ای میل اپنی گاڑی کے غیر معیاری ہونے کی شکایت درج کروائی تھی جس پر سوزوکی جاپان نے مداخلت کی اور پاک سوزوکی کو ان مسائل کا حل نکالنا پڑا۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج کل مقامی کار ساز ادارے بھی اپنی ساکھ کے لیے فکر مند ہیں اور اس پر اٹھنے والے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ سوشل میڈیا سے ممکن ہوا ہے۔ مثال کے طور پر آپ اسلام آباد کے رہائشی ایک ٹویوٹا صارف ہی کو دیکھ لیں جن کی نئی کرولا بہت سے مسائل کا شکار تھی۔ انہوں نے اسلام آباد آب پارہ میں موجودہ ڈیلرشپ سے ان مسائل کو حل کروانے کی کوشش کی تاہم ناکام رہے۔ یہاں تک کے ٹویوٹا انڈس نے بھی ان کی شکایت میں دلچسپی ظاہر نہیں کی جس کے بعد انہوں نے پاک ویلز فورم پر ایک دھاگہ بنایا۔ اس دھاگے کی مقبولیت نے انڈس موٹرز کو خواب غفلت سے جگایا اور انہوں نے مسائل جلد حل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ لیکن افسوس کہ اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور مذکورہ کرولا انڈس موٹرز کے لیے بری ساکھ کا باعث بن گئی۔ اس کے باوجود گاڑیوں کی تیاری کے عمل میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی گئی جو واقعی بہت افسوس ناک ہے۔ اس حوالے سے مکمل روداد آپ یہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اپنی شکایات اٹھانے کے علاوہ ایک قانونی راستہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں صارفین کے حقوق سے متعلق عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ یہ عدالتیں کنزیومر رائٹس کمیشن آف پاکستان کے تحت کام کرتی ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بہت موثر کام کام کرتی ہیں۔ تو اگر آپ کو سوزوکی مہران میں کسی قسم کے مسائل نظر آئیں چاہے وہ نقل و حمل کے دوران لگے والے ضرر ہوں ہوں یا ڈیلرشپ آپ سے تعاون نہ کر رہا ہے، آپ کنزیومر کورٹس جا سکتے ہیں۔ میں نے اکثر ان کورٹس کے متعلق مثبت باتیں ہی سنی ہیں البتہ ذاتی طور پر کسی قسم کا تجربے کا موقع نہیں ملا۔

تو یہ ہے ہمارے گاڑیوں کے شعبہ کی حالت زار۔ امریکی ریاستوں میں ڈیلرشپ کے لیے قانون موجود ہے لیکن ہم ایسے کسی قانون سے بے بہرہ ہیں۔ گوکہ ملک میں موجود قوانین پر عمل کم ہی ہوتا لیکن بہرحال قانون کی موجودگی ناگزیر ہے۔ ایسے قوانین کے بغیر ڈیلرشپ کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمہ داری نہیں لے گی اور چلیے ڈیلر شپ تو ایک طرف ہمارے یہاں کار ساز ادارے معیاری گاڑیوں کے لیے برائے نام بھی کوشش نہیں کر رہے۔

Google App Store App Store

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.